Tadabbur-e-Quran - At-Tur : 7
اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ
اِنَّ عَذَابَ : بیشک عذاب رَبِّكَ : تیرے رب کا لَوَاقِعٌ : البتہ واقع ہونے والا ہے
کہ تیرے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا
(7۔ 8) (اصل دعویٰ جو سورة کا عمود ہے)۔۔۔ یہ ہے وہ اصل دعویٰ جو اوپر کی قسموں کے بعد پیش کیا گیا ہے اور یہی اس سورة کا عمود بھی ہے۔ یہی بات معمولی تغیر الفاظ کے ساتھ، سابق سورة میں ہوائوں کی قسم کے بعد یوں ارشاد ہوئی ہے۔۔۔۔۔ (الذریت 5۔ 6) (بیشک جس چیز سے تمہیں ڈرایا جا رہا ہے وہ سچی ہے اور بیشک جزا اور سزا ہو کے رہے گی) بس اتنا فرق ہے کہ اس میں عذاب کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ ہم سابق سورة میں (انما توعدون لصادق) کی شرح کرتے ہوئے اشارہ کرچکے ہیں کہ اس سے مراد در حقیقت وہ عذاب ہے جس سے اللہ کے رسولوں نے دنیا اور آخرت میں ڈرایا ہے۔ اس سورة میں گویا وہی بات واضح فرما دی گئی ہے جو سابق سورة میں مضمر تھی۔ اجمال کے بعد تفصیل اور اضمار کے بعد توضیح قرآن مجید کا معروف اسلوب ہے جس کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ اوپر قسموں کی وضاحت کرتے ہوئے ہم ان شواہد کی طرف اشارہ کرچکے ہیں جو اس دعوے پر دلیل ہیں۔ ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہی کا حوالہ دے کر نبی ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم قریش کو جس عذاب سے ڈرا رہے ہو اور جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں وہ واقع ہو کے رہے گا، کوئی اس کو دفع کرنے والا نہ بن سکے گا۔ یعنی نہ تو ان کی اپنی قوت و جمعیت اس کے مقابل میں کچھ کام آئے گی اور نہ ان کے مزعور شرکاء و شفعاء ان کو اس سے چھڑا سکیں گے نہ دنیا میں اس سے کوئی بچا سکے گا اور نہ آخرت میں کوئی سہارا دے سکے گا۔ طور پر موسیٰ ؑ کو جو خبر دی گئی، تورات کے صحیفوں میں جو ریکارڈمرقوم ہے، یہ زمین جن آثار و شواہد سے معمور ہے، یہ سقف نیلگوں جن عجائب تصرفات قدرت کی گواہی دے رہی ہے اور یہ سمندر جن آیات الٰہی کے امین ہیں ان کو دیکھو اور ان پر غور کرو، وہ اس وعید کی تصدیق کے لیے کافی ہیں۔ ان کے علاوہ کسی اور نشانی کی ضرورت نہیں ہے۔ ان نشانیوں سے جن لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلیں گی وہ اگر آسمان کا کوئی ٹکڑا اپنے اوپر گرتا ہوا بھی دیکھیں گے تو اس کو بھی عذاب کے بجائے ابرِ باراں سمجھ کر خوشی سے ناچیں گے، یہاں تک کہ وہ ان کو تباہ کر کے رکھ دے گا لیکن وہ ایمان نہیں لائیں گے۔۔۔۔۔۔
Top