Tadabbur-e-Quran - An-Najm : 56
هٰذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى
ھٰذَا نَذِيْرٌ : یہ ایک ڈراوا ہے مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى : پہلے ڈراووں میں سے
(یہ اگلے نذیروں ہی کے زمرے کا ایک نذیر ہے۔
6۔ آگے آیات 56۔ 62 کا مضمون آگے خاتمہ سورة کی آیات ہیں۔ خاتمہ میں قرآن کے معروف طریقہ کے مطابق اس مضمون کی پھر یاددہانی فرما دی گئی ہے جس سے سورة کا آغاز ہوا تھا۔ یاد ہوگا کہ سورة کا آغاز اس مضمون سے ہوا ہے کہ اس قرآن کو کاہنوں اور نجومیوں کے کلام کی قسم کی کوئی چیز خیال کر کے اسکے انداز کو ٹالنے کی کوشش نہ کرو، بلکہ یہ وحی الٰہی اور کلام ربانی ہے۔ اگلے زمانوں میں جس طرح نذیر آ چکے ہیں انہی کے زمرے کا نذیر یہ بھی ہے۔ یہ جس چیز سے تمہیں ڈرا رہا ہے اس کو دور نہ سمجھو، وہ آئی کھڑی ہے اور جب آجائے گی تو اللہ کے سوا کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں بنے گا۔ اس کلام کا مذاق نہ اڑائو۔ یہ ہنسی مسخری کی چیز نہیں، رونے کی چیز ہے۔ ہوش میں آئو۔ اللہ ہی کو سجدہ اور اسی کی بندگی کرو۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ 7۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت (ابتداء کے مضمون کی)۔ (ھذا نذیر من النذر الاولی)۔ (56)۔ ھذا سے اشارہ قرآن مجید کی طرف ہے چونکہ بحث کا آغاز قرآن ہی سے ہوا تھا اس وجہ سے مشار الیہ کے ذکر کے بغیر بےتکلف آخر میں اس کی طرف اشارہ کردیا جس سے تمہید اور خاتمہ کا ربط بالکل واضح ہوگیا۔ اگر کوئی اس سے نبی ﷺ کو مراد لے تو بھی کوئی فرق واقع نہیں ہوگا اس لیے کہ پیغمبر اور اس کی دعوت دو الگ الگ چیزیں ہوتیں۔ قرآن مجید میں بعض جگہ (ذکر رسولا) کے الفاظ آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ذکر سے مراد قرآن ہے اور رسول سے مراد نبی ﷺ ہیں۔ لیکن اسلوب بیان ایسا اختیار فرمایا گیا ہے کہ نبی اور قرآن دونوں ایک ہی چیز کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ (نذر) کی تحقیق اس کی ممل میں گزر چکی ہے۔ یہاں یہ نذیر کی جمع ہے۔ اس سے مراد پچھلے انبیاء اور پچھلے صحائف سب ہیں اور مقصود کلام تنبیہ ہے کہ اس کلام کو ہنسی مسخری کی چیز نہ سمجھو۔ یہ اسی طرح کا انداز ہے جس طرح کا انداز پچھلی قوموں کو کیا گیا۔ اگر تم نے اس کا مذاق اڑایا تو یاد رکھو کہ اس کا انجام تمہارے آگے بھی اسی شکل میں آئے گا جس شکل میں پچھلی قوموں کے سامنے آچکا ہے۔
Top