Tadabbur-e-Quran - Al-Hadid : 28
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۚۙ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِرَسُوْلِهٖ : اس کے رسول پر يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ : دے گا تم کو دوہرا حصہ مِنْ رَّحْمَتِهٖ : اپنی رحمت میں سے وَيَجْعَلْ لَّكُمْ : اور بخشے گا تم کو۔ بنا دے گا تمہارے لیے نُوْرًا : ایک نور تَمْشُوْنَ بِهٖ : تم چلو گے ساتھ اس کے وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۭ : اور بخش دے گا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : غفور رحیم ہے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لائو وہ تم کو اپنی رحمت میں سے دو حصے دے گا اور تمہارے لیے روشنی بنائے گا جس کو لے کر تم چلو گے اور تمہاری مغفرت فرمائے گا۔ اللہ بڑا ہی غفور رحیم ہے
(یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وامنوا برسولہ یوتکم کفلین من رحمتہ و یجعل لکم نعدا تمشون بہ ویعفرلکم واللہ غفور رحیم) (28)۔ (سچے نصاری کو دعوت ایمان)۔ یہاں الذین امنوا سے خطاب انہی نصاری سے ہے جن کا ذکر اوپر والی آیت میں (فاتینا الذین امنوا منھم اجرھم) کے الفاظ سے ہوا ہے۔ جب بات ان کے ذکر تک پہنچ گئی تو انہی کے حوالہ سے ان نصاری کو آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کی دعوت دے دی گئی جن کے اندر ایمان کی رمق موجود تھی۔ ان کو خطاب کر کے فرمایا کہ اے لوگو جو ایمان لائے (یعنی مسیح ؑ پر ایمان لائے) اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول (محمد ﷺ پر ایمان لائو تو خدا تم کو اپنی رحمت میں سے دو حصے دے گا اور تمہارے لیے نور نمایاں فرمائے گا جس کو لے کر تم آخرت میں چلو گے اور اللہ تمہاری مغفرت فرمائے گا۔ وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے۔ سورة مائدہ میں نصاری کے ایک گروہ کی تعریف ان الفاظ میں آئی ہے۔ (۔۔۔۔ المائدۃ۔۔۔۔۔۔ 5۔ 82، 83)۔۔۔ (تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین قریش کو پائو گے اور اہل ایمان کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پائو گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاری ہیں۔ یہ بات اس وجہ سے ہے کہ ان کے اندر علماء اور راہب موجود ہیں اور یہ لوگ استکبار میں مبتلا نہیں۔ یہ لوگ جب اس کلام کو سنتے ہیں ہوگیا ہے تو اس حق کو پہچان دینے کے سبب سے جو اس کے اندر موجود ہے ان کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہوجاتی ہیں۔ وہ بکار اٹھتے ہیں کہ ابے رب ہم ایمان لائے تو ہمیں آخری رسول کی گواہی دینے والوں میں لکھ۔) آیت زیر بحث میں ان تمام نصاری کو جن کے اندر ایمان سابق کی رمق باقی ہے نبی امی پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے کہ اللہ سے ڈرو اور اسکے اس رسول پر ایمان لائو جس کی بشارت دینے پر تم مامور کیے گئے تھے۔ اللہ سے ڈرنے کی تنبیہ اس لیے فرمائی گئی ہے کہ بہت سے نصاری یہ سمجھتے تو تھے کہ آنحضرت ﷺ وہی نبی امی ہیں جن کی پشین گوئی انجیل میں وارد ہے لیکن اسلام کے خلاف خاکبازی کرنے والوں سے یہ لوگ ڈرتے تھے کہ اگر انہوں نے اس حق کا اعتراف کرلیا تو یہ سارے لوگ ان کے دشمن بن جائیں گے۔ ان کے اس اندیشے کی بناء پر متنبہ فرمایا کہ لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ صرف اللہ سے ڈرو۔ لوگوں کے ڈر سے تم نے اللہ کے ڈر کو نظر انداز کردیا تو اس کے انجام کو اچھی طرح سوچ لو۔ (دہرے اجر کا وعدہ)۔ (یوتکم کفلین من رحمتہ)۔ یہ اس وعدے کا اعادہ ہے جو سچے اور راست باز اہل کتاب کے لیے سورة قصص میں مذکورہ ہوا ہے۔ وہاں فرمایا گیا ہے کہ اہل کتاب میں سے جو اپنے دین پر بھی استوار رہے اور جب ان کے صحیفوں کو پیشین گوئیوں کے مطابق ان کے پاس اللہ کا آخری رسول آیا تو انہوں نے اس کے موعود اور بر حق ہونے کی بھی گواہی دی تو ان کو ان کا اجر دہرا ملے گا اس لیے کہ انہیں حق کی گواہی دینے کے لیے دو کڑے امتحانوں سے گزرنا پڑا اور وہ دونوں امتحانوں میں کامیاب رہے، فرمایا ہے : (۔۔۔۔ القصص :۔۔ 28، 52، 54۔۔۔۔)۔ (جن کو ہم نے اس قرآن سے پہلے کتاب عطا فرمائی وہی اس (قرآن) پر ایمان لانے والے بنیں گے۔ اور جب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، بیشک یہ ہمارے رب ہی کی طرف سے ہے اور ہم پہلے سے اس کے ماننے والے رہے ہیں، یہ لوگ ہیں جن کو ان کا اجر دو مرتبہ ملے گا بوجہ اس کے کہ وہ ثابت قدم رہے اور لوگوں کی ایذار سانیوں کو اچھے سلوک سے دفع کرتے اور سارے بخشے ہوئے رزق میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہے۔) سورة قصص کی تفسیر میں ہم نے واضح کیا ہے کہ (الذین اتینھم الکتب) سے اچھے اہل کتاب بالخصوص نصاری کے اس گروہ کی طرف اشارہ ہے جس کی حق دوستی اور خشیت رب کا ذکر سورة مائدہ کی محولہ بالا آیت میں ہوا۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ اہل کتاب کے صالحین کو دہرا اجر پانے کا یہ شرف اس بناء پر نہیں حاصل ہوگا کہ وہ اہل کتاب میں سے ہیں بلکہ اس وجہ سے ہوگا کہ انہوں نے اس حق کی بھی گواہی دی جو حضرت مسیح ؑ اور سابق نبیوں پر نازل ہوا اور اس حق کی بھی شہادت دی جو نبی امی ﷺ پر نازل ہوا۔ یہ امت چونکہ اس تمام حق کی بلا کسی تفریق و تحزب کے گواہی دینے والی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے، خواہ وہ سابق انبیائے کرام پر نازل ہوا یا نبی ﷺ پر نازل ہوا، اس وجہ سے یہ دہرا اجر پانے کی حق دار ہے چناچہ جو لوگ بھی اس امت میں داخل ہوں گے وہ اس شرف سے بہرہ مند ہوں گے۔ احادیث میں اس کی وضاحت ہوئی ہے لیکن اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس وجہ سے ہم زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ (ویجعل لکم نورا تمثون بہ ویغفرلکم)۔ یہ اسی طرح کی بشارت ہے جس طرح کی بشارت اسی سورة کی آیت 21 میں بدیں الفاظ گزر چکی ہے۔ (یوم تری المومنین والمومنت یسعی نورھم بین الدیھم و بایما نھم) (جس دن تم مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نوران کے آگے اور ان کے دائیں چل رہا ہوگا)۔ وہی بشارت ان صالحین کو بھی دی گئی ہے کہ ان کو اللہ نے ایمان کی جو روشنی دی تھی اس کی انہوں نے حفاظت کی، اس سے خود بھی رہنمائی حاصل کی اور اللہ کے دوسرے بندوں کو بھی راہ دکھائی۔ اس کے صلے میں ان کو آخرت میں ایک نور عطا ہوگا جس کو اس دن کے اندھیرے میں لے کر چلیں گے اور وہ سارے لوگ اس سے کسب نور کریں گے جنہوں نے دنیا میں ان کا ساتھ دیا ہوگا۔
Top