Tadabbur-e-Quran - As-Saff : 5
لَئِنْ اُخْرِجُوْا لَا یَخْرُجُوْنَ مَعَهُمْ١ۚ وَ لَئِنْ قُوْتِلُوْا لَا یَنْصُرُوْنَهُمْ١ۚ وَ لَئِنْ نَّصَرُوْهُمْ لَیُوَلُّنَّ الْاَدْبَارَ١۫ ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ
لَئِنْ : اگر اُخْرِجُوْا : وہ جلا وطن کئے گئے لَا : نہ يَخْرُجُوْنَ : وہ نکلیں گے مَعَهُمْ ۚ : ان کے ساتھ وَلَئِنْ : اور اگر قُوْتِلُوْا : ان سے لڑائی ہوئی لَا يَنْصُرُوْنَهُمْ ۚ : وہ ان کی مد د نہ کریں گے وَلَئِنْ : اور اگر نَّصَرُوْهُمْ : وہ ان کی مدد کرینگے لَيُوَلُّنَّ : تو وہ یقیناً پھیریں گے الْاَدْبَارَ ۣ : پیٹھ (جمع) ثُمَّ : پھر لَا يُنْصَرُوْنَ : وہ مدد نہ کئے جائینگے
اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ان کی مدد نہیں کریں گے اور اگر ان کی مدد بھی کریں گے تو پیٹھ دکھائیں گے پھر ان کی کوئی مدد نہیں ہوگی۔
(واللہ یشھد انھم لکذبون) جس قسم و تاکید کی ساتھ ان منافقین نے بنو قریظہ کو اپنی حمایت کا یقین دلایا اسی تاکید و توثیق کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو جھوٹا قرار دیا (واللہ یشھد) کے الفاظ ہم واضح کرچکے ہیں کہ قسم کے مفہوم میں آتے ہیں۔ (لئن اخرجوالایخرجون معھم ولئن قوتلوا لا ینصرونھم ولئن نصروھم لیولن الادبار ثم لا ینصرون) (12) (منافقین کی تردید)۔ یہ قرآن نے ان کے ایک ایک قول وقرار کی تکذیب کردی کہ وقت آنے پر یہ اپنی ایک بات میں بھی سچے ثابت نہیں ہوں گے۔ اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کا ساتھ نہیں دیں گے، اگر ان پر حملہ ہوا تو یہ ان کی حمایت میں اٹھنے والے نہیں ہیں اور اگر اٹھنے تو منہ کی کھائیں گے اور پیٹھ پھیر کر بھائیں گے، چناچہ یہی ہوا کہ وقت پر کوئی بھی ان کے کام نہ آیا ان کی عبرت انگیز انجام کی تفصیل سورة احزاب کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ (وقت پر بنو قریظہ کا کسی نے ساتھ نہ دیا)۔ یہاں بالا جمال اتنی بات یاد رکھیے کہ بنو نضیر کی طرح انہوں نے بھی آنحضرت ﷺ کے ساتھ امن و صلح کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ غزوہ خندق کے موقع پر مشہور یہودی حی بن اخطب نے ان کو نقص عہد پر ابھارا۔ اس نے ان کو سمجھایا کہ اس وقت قریش اور غطفان اپنی پوری جمعیت کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں، اگر تم بھی میدان میں آجائو تو بس سمجھو کہ مسلمانوں کا خاتمہ ہے۔ اس کے چکمے میں آ کر بنو قریظہ بھی معاہدہ توڑ کر حملہ آوروں میں شریک ہوگئے۔ غزوہ خندق کا جو انجام ہوا وہ معلوم ہے۔ اس سے فارغ ہوتے ہی حضور ﷺ نے بنو قریظہ کا رخ کیا اور ان کا محاصرہ کرلیا۔ اس وقت کسی نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا بالآخرا نہیں مجبور ہو کر اپنی قسمت کا فیصلہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کے ہاتھ میں دینا پڑا۔ اس فیصلہ کی تفصیل سورة احزاب میں گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سعد ؓ کے ہاتھوں ان کی جڑ کاٹ دی۔ (ثم لا ینصرون) یعنی پھر ان کے لیے امید کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے۔ یہ اللہ کی فیصلہ کن پکڑ ہوگی اور جو لوگ اللہ کی پکڑ میں آجاتے ہیں ان کو پھر کوئی بھی سہارا نہیں دے سکتا۔
Top