Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 154
ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
ثُمَّ اٰتَيْنَا : پھر ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب تَمَامًا : نعمت پوری کرنے کو عَلَي : پر الَّذِيْٓ : جو اَحْسَنَ : نیکو کار ہے وَتَفْصِيْلًا : اور تفصیل لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کی وَّهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ بِلِقَآءِ : ملاقات پر رَبِّهِمْ : اپنا رب يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لائیں
پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اپنی نعمت پوری کرنے کے لیے اس پر جو خوب کار تھا اور ہر بات کی تفصیل اور ہدایت اور رحمت تاکہ وہ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں
ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَ۔ ملت موسیٰ اور ملت ابراہیمی میں اشتراک :۔ ثُمَّ یہاں ترتیب کو ظاہر کرتا ہے۔ اوپر، جیسا کہ واضح ہوا، ملت ابراہیم کا بیان تھا، حضرت ابراہیم ؑ کے بعد صاحب شریعت اور صاحب کتاب رسول سیدنا موسیٰ ہی ہیں، فرمایا کہ ابراہیم کے بعد ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تاکہ اپنے خوب کار بندے پر اپنی شریعت کی نعمت تمام کریں، اس میں ہر ضروری بات کی تفصیل کو دیں اور اس ہدایت و رحمت بنائیں تاکہ لوگ آخرت میں اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ حضرت موسیٰ کو جو کتاب دی گئی اس میں بھی بنیادی احکام وہی ہیں جو ملت ابراہیم کے باب میں بیان ہوئے ہیں۔ آپ کو سب سے پہلے جو احکام الواح میں لکھ کردیے گئے، احکامِ عشرہ کے نام سے مشہور ہیں۔ تورات میں دیکھ لیجئے، الفاظ میں فرق ہو تو ہو لیکن باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حد یہ ہے کہ تعداد میں بھی فرق نہیں ہے۔ اوپر ملت ابراہیم کے جو احکام گنائے گئے ہیں وہ امر و نہی سب ملا کر دس بنتے ہیں۔ یہی دس احکام شریعت موسوی کی بھی بنیاد ہیں۔ ان پر اضافہ ہوا ہے تو تفصیلات کا اضافہ ہوا ہے جیسا کہ قرآن نے اشارہ کیا ہے اور بعینہ یہی احکام ابتدائی طور پر، جیسا کہ ہم سورة نحل اور سورة بنی اسرائیل میں واضح کریں گے، اس امت کو دیے گئے، گویا اصل دین بنیادی طور پر ایک ہی ہے، فرق ہے تو اجمال و تفصیل اور آغاز و تکمیل کا ہے۔ اس ملت میں دین کو اس کی اصل اساس یعنی ملت ابراہیمی پر لوٹا کر کامل اور ان قیدوں اور پابندیوں سے آزاد کردیا گیا جو یہود پر، جیسا کہ اوپر واضح ہوا، ان کی سرکشی کے سبب سے عاید ہوئی تھیں۔ تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ سے مراد لوگوں نے جماعت بھی لی ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس سے مراد حضرت موسیٰ ہی ہیں۔ الذی کا معروف استعمال معرفہ ہی کے لیے ہے اور جب واحد ہو تو اس سے کوئی خاص ذات ہی مراد لی جاسکتی ہے۔ قرآنی تمثیلات میں کہیں کہیں اس کا ما صدق جماعت بھی ہے لیکن اس کے خاص قرائن اور خاص وجوہ ہیں جن کی تفصیل اپنے محل میں آئے گی۔ حضرت موسیٰ کے لیے یہ صفت اسی طرح استعمال ہوئی ہے جس طرح حضرت ابراہیم کے لیے سورة نجم میں الذی وفی استعمال ہوئی ہے۔ مقصود اس صفت کے اظہار سے حضرت موسیٰ کا اس اتمام نعمت کا سزا وار ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نے ان کو اس نعمت کا سزاوار اس لیے گردانا کہ وہ خوب کار تھے۔ اللہ نے ان کے ظاہر و باطن میں جو کچھ ان کو بخشا اس کا حق انہوں نے پہچانا اور ہر حق نہایت خوبی سے ادا کیا۔ ایسے ہی بندے اللہ کی نعمتوں کے سزوار بنتے ہیں اور جب وہ کسی کو اپنے منصب نبوت کے لیے انتخاب فرمایا چاہتا ہے تو کسی ایسے ہی خوب کار کو چنتا ہے اور اس پر اپنی نعمت تمام کرتا ہے۔ یہ صفت یہود کو نہایت لطیف انداز میں یاد دہانی کر رہی ہے کہ وہ ذرا اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ جس سے انہوں نے دین کی وراثت حاصل کی وہ کیا تھا اور یہ کیا ہیں ؟ اس کو اللہ نے اس لیے اس نعمت سے نوازا تھا کہ اس نے ہر نعمت کا حق پہچانا اور اس کو نہایت خوبی سے ادا کیا۔ ان کا حال یہ ہے کہ انہوں نے ہر نعمت کی ناقدری کی۔ ہر ہدایت سے اعراض کیا، ہر حکم کا حلیہ بگاڑا لیکن مدعی ہیں کہ دنیا و آخرت کی تمام سعادتیں انہی کا حصہ ہیں۔ وَتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ میں کل شیء سے مراد وہ مسائ ہیں جو دین کے دئرے میں آتے ہیں۔ دین کے اصول اور بنیادی مسائل تو وہی ہیں جو اوپر ملت ابراہیم سے متعلق، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، بیان ہوئے لیکن ان میں سے ہر چیز کے تحت تفصیلات و جزئیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو جو کتاب عطاء فرمائی اس میں یہ تمام تفصیلات و جزئیات بھی بیان فرمائیں۔ اس طرح یہ کتاب ہدایت اور رحمت کا مجموعہ بن گئی۔ ہدایت اور رحمت کے الفاظ نہایت حکیمانہ ترتیب کے ساتھ اس مقصد کو ظاہر کرتے ہیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ بندوں پر اپنی کتاب اتارتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کتاب اس لیے اتارتا ہے کہ دنیا میں زندگی بسر کرنے کا وہ طریقہ بتائے جو آخرت میں بندوں کو اس کی رحمت کا سزاوار بنائے۔ اس پہلو سے کتاب اپنے مقصد کے اعتبار سے ہدایت اور اپنے ثمرہ اور انجام کے لحاط سے رحمت ہوتی ہے۔ پھر زندگی کی اصل غایت تو آخرت ہے، اس دنیا کی زندگی تو فانی اور عارضی ہے۔ اس وجہ سے کتاب الٰہی کا اصل مقصد یہ ہوا کہ وہ اس دنیا کی زندگو کو وہ جلوہ دے کہ لوگ اللہ کی ملاقات پر ایمان لائیں اور اسی کو نصب العین بنا کر زندگی کا سفر طے کریں۔ اسی حقیقت کی طرف لَّعَلَّهُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّهِمْ کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں۔
Top