Dure-Mansoor - Adh-Dhaariyat : 4
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اَسْرَفُوْا : زیادتی کی عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں لَا تَقْنَطُوْا : مایوس نہ ہو تم مِنْ : سے رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی رحمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَغْفِرُ : بخش دیتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ (جمع) جَمِيْعًا ۭ : سب اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : مہربان
آپ فرما دیجئے کہ اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ بلاشبہ اللہ تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا، بیشک وہ بہت بخشنے والا ہے نہایت رحم والا ہے
1:۔ ابن جریر (رح) نے ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم “ (آپ فرما دیجئے کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے کفر و شرک کرکے اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں) کہ (یہ آیت) مکہ کے مشرکوں کے بارے میں ہے۔ 2:۔ ابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) و طبرانی (رح) وحاکم (رح) وابن مردویہ (رح) فی الدلائل ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے (اس آیت کو) لکھا پھر ہشام بن عاص کی طرف بھیجا۔ توبہ سے ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے : 3:۔ طبرانی (رح) وابن المردویہ و بیہقی نے شعب الایمان میں (بسند لین) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حمزہ ؓ کے قاتل وحشی بن حرب کی طرف قاصد بھیجا اور ان کو اسلام کی طرف بلایا اس نے آپ کی طرف پیغام بھیجا اے محمد ﷺ آپ مجھے کس طرح اسلام کی دعوت دیتے ہیں حالانکہ آپ یہ گمان رکھتے ہیں کہ جو قتل کرے یا شرک کرے یا زنا کرے۔ (آیت ) ” ومن یفعل ذلک یلق اثاما (68) یضعف لہ العذاب یوم القیمۃ ویخلد فیہ مھانا (69) “ (الفرقان) (وہ گناہ میں جاپڑ اقیامت کے دن اسے دوگنا عذاب ہوگا اور اس میں ذلیل ہو کر پڑا رہے گا اور میں نے یہ کام کیئے ہیں، کیا میرے لئے آپ رخصت پاتے ہیں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت ) ” الا من تاب وامن وعمل عملا صالحا فاو لئک یبدل اللہ سیاتھم حسنت۔ وکان اللہ غفور ارحیما “ (الفرقان آیت 70) (مگر جس نے توبہ کرلی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کئے تو ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ بخشنے والے مہربان ہیں) وحشی نے کہا یہ سخت شرط ہے۔ (آیت ) ” الا من تاب وامن وعمل صالحا “ شاید میں اس پر قادر نہ ہوسکوں تو اللہ تعالیٰ یہ (آیت ) ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشآء “ (النسآء آیت 18) (اللہ تعالیٰ نہیں بخشیں گے جو اس کے ساتھ شریک کرے گا اور اس کے علاوہ کو بخش دیں گے جس کے لئے چاہیں گے) وحشی نے کہا یہ میں دیکھ رہا ہوں۔ (معافی کو) اللہ کی مشیت کے بعد اور میں نہیں جانتا کہ میری مغفرت ہوگی یا نہیں کیا اس کے علاوہ کوئی اور (آیت) ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) اتری ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم “ (یہ سن کر) وحشی نے کہا یہ سمجھ میں آگیا اور مسلمان ہوگئے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ہم نے بھی انہیں گناہوں کا ارتکاب کیا جو وحشی نے کئے۔ فرمایا) (یہ آیت) تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے۔ 4:۔ ابن ابی حاتم (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے ابوسعید ؓ سے روایت کیا کہ جب وحشی ایمان لے آیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) اتاری ” والذین لایدعون مع اللہ الھا اخر ولا یتقلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق “ (اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبود کو نہیں بلاتے اور کسی جان کو (ناحق) قتل نہیں کرتے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام بنایا مگر حق کے ساتھ (یعنی جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کو قتل کرتے ہیں) وحشی اور اس کے ساتھیوں نے کہا ہم نے ان سارے گناہوں کو ارتکاب کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) اتاری ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم “۔ 5:۔ محمد بن نصر نے کتاب الصلاۃ میں وحشی ؓ سے روایت کیا کہ جب حمزہ ؓ کے بارے میں جو (معاملہ) ہوا تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں محمد ﷺ کا خوف ڈال دیا تھا۔ تو میں بھاگ کھڑا ہوا دن کو چھپ جاتا تھا اور رات کو چلتا تھا یہاں تک کہ میں قبیلہ حمیر کے بادشاہوں کی طرف پہنچ گیا اور ان میں رہنے لگا میں وہاں ٹھہرا ہوا تھا، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کا قاصد میرے پاس آیا جس نے مجھے اسلام کی دعوت دی۔ میں نے کہا اسلام کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ تو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر اور تو اللہ کے ساتھ شرک کرنے کو اور کسی جان کو قتل کرنے کو جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا اور تو شراب پینے کو اور زنا کرنے کو اور سارے برے کاموں کو چھوڑ دے اور تو غسل جنابت کرے اور پانچ نمازیں پڑھے گا۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم “ (یہ آیت سن کر) میں نے کہا ” اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھدا ان محمد عبدہ ورسولہ “ اس سے مجھ سے مصافحہ کیا اور میری کنیت ابوحرب رکھی۔ 6:۔ بخاری (رح) نے الادب المفرد میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف لائے جو ہنس رہے تھے۔ آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو تھوڑا ہنستے اور بہت روتے پھر آپ چلے گئے صحابہ کریم ؓ رونے لگے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی بھیجی : اے محمد ! تو میرے بندوں کو کیوں مایوس کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ واپس تشریف لائے اور فرمایا : خوش ہوجاؤ اور قریب ہوجاؤ اور میانہ روی اور اعتدال اختیار کرو۔ اللہ تعالیٰ کی وسعت رحمت : 7:۔ ابن مردویہ (رح) و بیہقی (رح) نے اپنی سنن میں عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عباس بن ابی ربیعہ ؓ نے اور ہشام بن عاص بن وائل نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرجائیں اور میں اور عیاش (اکٹھے) نکلے اور ہشام دین سے فتنہ میں ڈالا گیا تو وہ فتنہ میں پڑگئے عیاش کے پاس اس کے بھائی ابوجہل اور حارث بن ہشام آئے دونوں نے کہا تیری ماں نے نذر مانی ہے کہ نہ وہ سائے میں جائے گی اور نہ غسل کرے گی یہاں تک کہ تجھ کو نہ دیکھے گی (عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا) کہ میں نے کہا اللہ کی قسم ! وہ دونوں (یعنی تیرے بھائی) تجھے تیرے دین سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں وہ دونوں اس کو لے گئے اور انہوں نے اس کو فتنہ میں ڈال دیا تو وہ فتنہ میں پڑگئے تو (اس) (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ “ عمر نے فرمایا کہ میں نے ہشام کو (یہ آیت) لکھ بھیجی تو وہ (مدینہ منورہ) آگئے۔ 8:۔ ابن جریر (رح) وابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ “ یہ اس وجہ سے کہ اہل مکہ نے کہا ہے کہ محمد ﷺ نے گمان کیا ہے کہ جس نے بتوں کی عبادت کی اور اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت کی اور اس جان کو قتل کیا جس کو اللہ نے حرام قرار دیا تو اس کی مغفرت نہیں ہوگی۔ تو کس طرح ہم ہجرت کریں اور ہم ایمان لائیں جبکہ ہم نے بتوں کی عبادت کی اور ناحق لوگوں کو قتل کیا اور ہم شرک کرنے والے بھی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) اتاری ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا “ اور فرمایا (آیت ) ” وانبیوا الی ربکم واسلموا لہ “ (اور تم اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس پر ایمان لے آؤ) اور اللہ تعالیٰ عتاب فرماتے ہیں عقل والوں کو بلاشبہ حلال اور حرام ایمان والوں کے لئے ہے۔ وہ ان کو ہی اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا اور خاص کر ان کو ہی حکم دیا جب ان میں سے کسی نے بھی اپنی جان پر ظلم کرلیا تو وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائے۔ اور وہ توبہ کرے اپنی ذات پر ظلم اور کیا ہوا گناہ اسے توبہ سے نہ روکے اور اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران میں ایمان والوں کا ذکر کیا جب انہوں نے مغفرت کا سوال کیا اور کہا (آیت ) ” ربنا اغفرلنا ذنوبنا واسرافنا فی امرنا “ (اے ہمارے رب ہمارے گناہوں کو اور وہ ہماری زیادیتوں کو ہمارے کاموں میں بخش دیجئے) چاہئے کہ وہ اس بات کو جان لیں کہ وہ دونوں عمل کیا کرتے تھے تو ان کو تو یہ حکم دیا گیا۔ 9:۔ ابن جریر (رح) نے عطاء بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ کہ یہ تین آیات وحشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں مدینہ منورہ میں نازل ہوئی (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم “ سے لے کر (آیت ) ” وانتم لا تشعرون “ تک۔ 10:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیات عیاش بن ابی ربیعہ ولید بن الولید اور مسلمانوں میں سے ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو اسلام لائے تھے پھر آزمائے گئے اور عذاب دیئے گئے تو وہ دین سے پھرگئے پھر ہم کہتے تھے اللہ تعالیٰ نہ ان کی توبہ قبول کرے گا اور نہ ہی کوئی فدیہ قبول کرے گا یا نہ نفل اس کا قبول ہوگا اور نہ فرض کچھ قوموں نے اسلام قبول کیا پھر اپنے دین کو چھوڑ بیٹھے اس اذیت کی وجہ سے جو ان کو اذیت دی گئی یہ آیات نازل ہوئیں اور عمر بن خطاب ؓ کاتب تھے پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے اس کو لکھا پھر اسے عیاش اور ولید اور اس جماعت کی طرف بھیجا تو وہ اسلام لے آئے اور ہجرت کی۔ 11:۔ احمد وابن جریر (رح) وابن ابی حاتم (رح) وابن مردویہ (رح) و بیہقی (رح) نے شعب الایمان میں ثوبان ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا میں محبوب نہیں رکھتا کہ میرے لئے دنیا ومافیھا ہو اس آیت کے بدلے میں یعنی (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم “ (آیت کے آخر تک) ایک آدمی نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ جو شرک کرے ( اس کا کیا بنے گا) نبی کریم ﷺ خاموش رہے پھر فرمایا ” الا ومن اشرک “ آپ نے تین مرتبہ ایسا فرمایا۔ 12:۔ احمد وعبد بن حمید (رح) و ابوداؤد و ترمذی (رح) (وحسنہ) وابن المنذر وابن الانباری نے المصاحف میں وحاکم (رح) وابن مردویہ (رح) نے اسماء بنت یزید ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا “ (فرمایا) اسے کوئی پرواہ نہیں کہ وہ بخشنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ (رح) وعبد بن حمید وابن ابی الدنیا (فی حسن الظن) وابن جریر (رح) وابن ابی حاتم (رح) و طبرانی (رح) و بیہقی (رح) نے شعب الایمان میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ آپ ایک نصیحت کرنے والے کے پاس سے گزرے جو لوگوں کو نصیحت کررہا تھا آپ نے ان لوگوں کو نصیحت کرنے والے سے فرمایا : کہ لوگوں کو مایوس نہ کر۔ پھر یہ (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ “ 14:۔ ابن جریر (رح) نے ابن سرین (رح) سے روایت کیا کہ علی ؓ نے پوچھا کونسی آیت زیادہ وسعت والی ہے تو لوگ قرآن کی آیات کا ذکر کرنے لگے (اور کہا یہ ہے) (آیت ) ” من یعمل سوٓء او یظلم نفسہ “ (النساء آیت 12) اور اس طرح کی اور آیتیں ذکر کیں) علی ؓ نے فرمایا کہ قرآن میں اس (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم “ سے بڑھ کر زیادہ وسعت والی کوئی آیت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں !: 15:۔ ابن جریر وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم “ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بلایا ہے اپنی مغفرت کی طرف جس نے گمان کیا مسیح (علیہ السلام) وہی اللہ ہے اور جس نے گمان کیا کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے اور جس نے گمان کیا کہ عزیز (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے اور جس نے گمان کیا ہے کہ اللہ محتاج ہے اور جس نے گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے اور جس نے گمان کیا کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس سب کو فرماتے ہیں (آیت) ” افلا یتوبون الی اللہ ویستغفرونہ، واللہ غفور رحیم (74) کیا وہ لوگ اللہ کی طرف توبہ نہیں کرتے اور اس سے استغفار نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والے پر رحم کرنے والے ہیں) پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو دعوت دی جو ان سے بھی بڑی بات کرنے والے ہیں ان لوگوں میں سے جس نے کہا (آیت ) ” انا ربکم الاعلی “ (النازعات آیت 42) (میں تمہارا بڑا رب ہوں) اور کہا (آیت ) ’ ما علمت لکم من الہ غیری “ (القصص آیت 38) (کہ میں نہیں جانتا تمہارے لئے میرے علاوہ کوئی دوسرا معبود (ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جس نے بندوں کو توبہ سے مایوس کیا ان آیات کے بعد تو یقینی طور پر اس نے اللہ کی کتاب کا انکار کیا لیکن کوئی بندہ تو بہ کرنے پر قادر نہیں ہے جب تک اللہ تعالیٰ اس پر نظر کرم نہ فرمائے۔ 16:۔ ابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ ابلیس نے کہا اے میرے رب میرے لئے اور زیادہ کیجئے (یعنی مجھے اور زیادہ اختیار دیجئے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کے سینے تمہارے رہنے کی جگہیں ہیں اور تم ان میں خون کے دوڑنے کی طرح گردش کروگے ابلیس نے کہا اے میرے رب ! میرے لئے اور زیادہ کیجئے فرمایا : (آیت ) ” واجلب علیھم بخیلک ورجلک وشارکھم فی الاموال والاولاد وعدھم وما یعدھم الشیطن الا غرورا (64) (سورۃ الاسراء) (اور ان پر اپنے سوار اور پیادے بھی چڑھاوے اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوجا اور ان سے وعدے کر اور شیطان کے وعدے بھی محض فریب ہی تو ہیں) آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا : اے میرے رب ! آپ نے شیطان کو میرے اوپر مسلط کردیا ہے مگر میں اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا مگر تیری مدد سے فرمایا کہ تیری جو بھی اولاد پیدا ہوگی تو میں ہی اس کیلئے ایک فرشتہ مقرر کروں گا جو اس کا برے ساتھیوں) یعنی شیطانوں) سے حفاظت کرے گا۔ عرض کیا : اے میرے رب ! میرے لئے اور زیادہ کیجئے فرمایا ایک نیکی کا بدلہ دس گناہ اس سے زیادہ ہوگا۔ اور برائی کا بدلہ ایک یا اس کو بھی مٹادوں گا۔ عرض کیا : اے میرے رب ! میرے لئے اور زیادہ کیجئے۔ فرمایا توبہ کا دروازہ کھلا ہے جب تک کہ روح جسم میں ہے۔ عرض کیا : اے میرے رب میرے لئے اور زیادہ کیجئے تو فرمایا (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا انہ ھو الغفور الرحیم (53) 17:۔ احمد وابو یعلی والضیاء نے انس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اگر تم غلطیاں کرو گے یہاں تک کہ تمہاری خطائیں زمین و آسمان کو بھر دیں پھر تم مجھ سے مغفرت طلب کرو تو تم کو بخش دیا جائے گا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تو اللہ تعالیٰ دوسری قوم کو لے آئے گا جو غلطیاں کریں گے پھر وہ استغفار کریں گے تو ان کو بخش دیا جائے گا۔ 18:۔ ابن ابی شیبہ ومسلم نے ابوایوب انصاری ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم گناہ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ دوسری مخلوق پیدا کردیں گے جو گناہ کریں گے پھر ان کو بخش دیا جائے گا۔ 19:۔ الخطیب نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کی وحی بھیجی اے داؤد میرے بندوں میں سے ایک بندہ میرے پاس نیکی لاتا ہے میں اسے اپنے بارے میں حکم بنا لیتا ہوں داؤد (علیہ السلام) نے پوچھا وہ نیکی کیا ہے ؟ فرمایا یہ وہ رنج وغم ہے جو اس نے مؤمن بندہ سے دور کردیا داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا اے اللہ جو آپ کو پہچانتا ہے جس طرح پہچاننے کا حق ہے تو وہ اس بات کا حقدار ہے کہ آپ سے مایوس نہ ہو۔ یاحنان ویامنان کا وظیفہ : 20:۔ حکیم ترمذی (رح) نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا اے محمد ! اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھ سے مخاطب ہو کر فرمائیں گے اے جبرئیل (علیہ السلام) کیا وجہ ہے کہ فلاں بن فلاں کو دوزخ والوں کی صفوں میں دیکھتا ہوں تو میں کہوں گا اے میرے رب ! ہم نے اس کی کوئی نیکی نہیں پائی۔ جو آج اس کے لئے بھلائی لائے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے بلاشبہ میں نے اس سے دنیا میں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ یہ کہہ رہا تھا یا حنان یا منان اس کے پاس جاؤ اور اس سے پوچھو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا میرے علاوہ کوئی حنان منان ہے ؟ تو میں اسے پکڑوں گا دوزخ والوں کی صفوں میں سے اور اس کو جنت والوں کی ؔ صفوں میں داخل کردیں گے۔ 21:۔ ابن الضریس (رح) وابو القسام بن بشیر (رح) نے امالیہ میں علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ فقیہ اور ہر فقیہ وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور ان کو ان کے گناہوں میں اجازت نہیں دے۔ اور ان کو اللہ کے عذاب سے بےخوف بھی نہ کرے اور وہ قرآن نہ چھوڑے ان چیز کی طرف رغبت کرتے ہوئے کیونکہ ایسی عبادت میں خیر نہیں جس میں علم نہ ہو اور وہ علم نہیں جس میں فہم نہ ہو اور ایسے علم میں کوئی فائد نہیں جس میں غور وفکر نہ ہو۔ 22:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے عطار بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے والوں کا ایک پل ہے قیامت کے دن لوگ ان کی گردنوں کو روندیں گے۔ 23:۔ عبدالرزاق وابن المنذر (رح) نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں تم کو ایک عبادت نہ بتاؤں جبکہ تو لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتا ہے۔ ابن المنذر (رح) نے فرمایا ضرور بتائیے۔ فرمایا : بچو تم لوگوں کو ہلاک کرنے سے اوزان کو (رحمت سے) مایوس کرنے سے۔ 24:۔ عبدالرزاق (رح) وابن المنذر (رح) نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی گزشتہ امتوں میں سے تھا جو عبادت میں کوشش کرتا تھا۔ اور اپنے رب کوشش کرتا تھا۔ اور اپنے رب پر سختی کرتا اور لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس کرتا تھا پھر وہ مرگیا اور کہا : اے میرے رب ! آپ کے نزدیک میرے لئے کیا ہے ؟ فرمایا آگ اس نے کہا میری عبادت اور میری ریاضت کہاں جائے گی ؟ اس سے کہا جائے گا تو لوگوں کو میری رحمت سے مایوس کرتا تھا اور میں نے آج کے دن تجھ کو اپنی رحمت سے مایوس کردیا ہے۔ 25:۔ عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ کچھ لوگ بڑے شرک میں پڑگئے اور وہ ڈرتے تھے کہ ان کی مغفرت نہیں ہوگی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس آیت کے ساتھ بلاتے ہوئے فرمایا : (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا انہ ھو الغفور الرحیم (53) 26:۔ عبد بن حمید نے ابومجلز لاحق بن حمید سدوسی (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر یہ آیت اتاری (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا “ آخری آیت تک تو نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اور ان پر اس آیت کو تلاوت کیا۔ ایک آدمی نے کہا : یارسول اللہ ﷺ ” والشرک باللہ “ (اور شرک کرنا اللہ کے ساتھ اس کا کیا حکم ہے ؟ ) آپ خاموش ہوگئے وہ آدمی بات دہراتا رہا جب تک اللہ نے چاہا تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) اتاری ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشآء “۔ 27:۔ عبد بن حمید (رح) نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ “۔ سے لیکر (آیت ) ” وانیبوا الی ربکم واسلموا لہ “ تک کے بارے میں روایت کیا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس آیت اور مابعد والی آیت (آیت ) ” وانیبوا الی ربکم “ کا آپس میں تعلق ہے۔
Top