Tadabbur-e-Quran - Al-Qalam : 2
مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍۚ
مَآ اَنْتَ : نہیں ہیں آپ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ : اپنے رب کی نعمت کے ساتھ بِمَجْنُوْنٍ : مجنون
کہ تم اپنے رب کے فضل سے کوئی دیوانے نہیں ہو
قسم کا مقسم علیہ: یہ مقسم علیہ ہے۔ یعنی تمام پچھلے آسمانی صحیفے اور یہ قرآن، جو لکھا جا رہا ہے، سب اس بات پر شاہد ہیں کہ تم اللہ کے فضل سے کوئی دیوانے نہیں ہو۔ بلکہ تم انہی باتوں سے لوگوں کو آگاہ کر رہے ہو جن سے آدم علیہ السلام سے لے کر مسیح علیہ السلام تک ہر نبی نے آگاہ کیا اور جن کی صداقت پر تاریخ گواہ ہے۔ اگر یہ مدعیان دانش اس جرم میں تمہیں دیوانہ کہہ رہے ہیں تو اس کا غم نہ کرو، تم دیوانے نہیں بلکہ اپنے رب کے سب سے بڑے فضل سے بہرہ مند ہو البتہ ان دانش فروشوں کی عقل ماری گئی ہے کہ یہ دیوانے اور فرزانے میں امتیاز سے قاصر ہیں۔ آنحضرت صلعم کو مجنون کہنے کی وجہ: آنحضرت ﷺ کو مجنون کہنے کی وجہ ہم اس کے محل میں ظاہر کر چکے ہیں کہ قریش کے لیڈروں کی سمجھ میں یہ بات کسی طرح نہیں آتی تھی کہ آپؐ جس عذاب سے ان کو اس شد و مد اور اس جزم و یقین کے ساتھ ڈرا رہے ہیں کہ گویا اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں آخر وہ کدھر سے آ جائے گا؟ ان کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ آپ کے لب و لہجہ میں جو غیر معمولی جزم و یقین، آپ کے انداز دعوت میں جو مافوق العادت بے چینی و بے قراری اور آپ کی تذکیر میں دلوں کو ہلا دینے والی جو درد مندی و شفقت ہے اس سے ان کے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ اس اثر کو زائل کرنے کے لیے انھوں نے لوگوں کو یہ باور کرانا چاہا کہ اس شخص کی یہ ساری بے چینی و بے قراری اس وجہ سے نہیں ہے کہ فی الواقع کوئی عذاب آنے والا ہے جس سے آگاہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے بلکہ بعض اشخاص کو جس طرح کسی چیز کا مالیخولیا ہو جاتا ہے اور وہ اٹھتے بیٹھتے اسی کی رٹ لگائے رکھتے ہیں اسی طرح اس شخص کو بھی عذاب کا مالیخولیا ہو گیا ہے جو اس کو ہر طرف سے آتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس بات کو تقویت دینے کے لیے اس پر وہ یہ اضافہ بھی کر دیتے کہ کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے جس کے سبب سے اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں رہی ہے اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔
Top