Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 13
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ
قَالَ : فرمایا فَاهْبِطْ : پس تو اتر جا مِنْهَا : اس سے فَمَا : تو نہیں يَكُوْنُ : ہے لَكَ : تیرے لیے اَنْ : کہ تَتَكَبَّرَ : تو تکبر کرے فِيْهَا : اس میں (یہاں) فَاخْرُجْ : پس نکل جا اِنَّكَ : بیشک تو مِنَ : سے الصّٰغِرِيْنَ : ذلیل (جمع)
فرمایا، پھر تو یہاں سے اتر، تجھے یہ حق نہیں ہے کہ تو اس میں گھمنڈ کرے، تو نکل، یقیناً تو ذلیلوں میں سے ہے
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِيْهَا الایہ ،۔ تکبر شرک ہے :۔ جانتے بوجھتے خدا کے حکم سے سرکشی تکبر ہے جو اس تکبر میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو خدا سے بڑا یا اس کا ہم سر ٹھہراتا ہے جو صریحاً شرک ہے۔ کبریائی صرف خدا کے لیے زیبا ہے جو اس میں حصہ بٹانے کے مدعی بنتے ہیں ان پر خدا کی طرف سے ذلت کی مار پڑتی ہے۔ متکبر کے لیے خدا کی بہشت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ بہشت صرف خاشعین و عابدین کی جگہ ہے اس وجہ سے ابلیس کو وہاں سے نکلنے کا حکم ہوا اور اس کے تکبر کے جرم میں اس کو دائمی ذلت کی سزا دی گئی۔ آگے اسی طرح کے متکبرین کے بارے میں فرمایا ہے کہ جس طرح اونٹ سوئی کے ناکے میں نہیں جاسکتا اسی طرح متکبرین خدا کی بہشت میں نہیں جاسکتے۔ اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاۗءِ وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ (اعراف :40) (بےشک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور تکبر کر کے ان سے اعراض کیا ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل نہ ہوجائے)۔ بعینہ یہی بات سیدنا مسیح نے فرمائی ہے کہ جس طرح اونٹ سوئی کے ناکے میں نہیں جاسکتا اسی طرح دولت مند خدا کی بہشت میں نہیں جاسکتا۔ دوسنوں تعبیروں میں صرف یہ فرق ہے کہ قرآن نے اصل جرم، استکبار کا حوالہ دیا ہے اور سیدنا مسیح نے علت جرم یعنی دولت کا، جو بالعموم استکبار کا سبب بن جاتی ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہو کہ شیطان کا اصل جرم استکبار تھا جس کے سبب سے وہ جنت سے نکالا گیا۔ اس وجہ سے جو لوگ اس جرم میں اس کے ساتھی بنیں گے ان کے لیے خدا کی بہشت میں کوئی مقام نہیں ہے۔
Top