Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 7
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
اور ان کو اس کی سرگزشت سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیات عنایت کیں تو وہ ان سے نکل بھاگا، پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا، بالآخر وہ گمراہوں میں سے ہوگیا
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِيْٓ اٰتَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّيْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِيْنَ۔ علیہم میں ھم سے مراد قریش ہیں جن کو اور والی آیات میں مخاطب کر کے عہد فطرت کی یاد دہانی کی گئی ہے۔ الذی اگرچہ اصلاً معرفہ کے لیے آتا ہے لیکن تمثیلات میں لازم نہیں ہے کہ اس سے کوئی معین شخص ہی مراد ہو جو خارج میں بھی موجود ہو بلکہ متکلم جس کی تمثیل پیش کرنا چاہتا ہے اس کو نگاہ میں رکھ کر اس کا ایک ایسا سراپا آراستہ کردیتا ہے جو اس پر پوری طرح منطبق ہوجاتا ہے۔ چونکہ پیش نظر صرف واقعہ کی تصویر کشی ہوتی ہے اس وجہ سے تقاضائے بلاغت یہ ہوتا ہے کہ اس کو نکرہ کے بجائے معرفہ کے لفظوں میں ذکر کیا جائے تاکہ تمثیل ایک خاص شخص کی صورت میں متمثل ہو کر اس طرح سامع کے سامنے آجائے کہ گویا اس نے اس کی سرگزشت صرف سنی ہی نہیں بلکہ خود اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا۔ یہاں اس الذی سے مراد یہود من حیث القوم ہیں جن کی تمثیل ایک ایسے شخص سے دی گئی ہے جس کو خدا نے اپنی آیتوں سے نوازا لیکن اس نے ان کی قدر نہ کی بلکہ یہ خلعت اس نے اتار پھینکی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس سنت الٰہی کے مطابق جو سورة زخرف آیت 26 میں بیان ہوئی ہے کہ ومن یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطانا فھو لہ قرین (جو خدائے رحمان کی یاد دہانی سے منہ پھیرتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں پس وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے) شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں سے بن گیا۔ یہ بات کہ یہ کسی معین شخص کا ذکر نہیں بلکہ خدا کی آیات کی تکذیب کرنے والی ایک قوم کی تمثیل ہے خود قرآن کے الفاظ ہی سے واضح ہے چناچہ اس کے بعد فرمایا ذلک مثل القوم الذین کذبوا بایاتنا (یہ اس قوم کی تمثیل ہے جس نے ہماری آیات کی تکذیب کی) اس وجہ سے ہمارے نزدیک ‘ الذی ’ سے کسی بلعام بن باعور کو مراد لینے کی ضرورت نہیں۔ یہود میں کوئی ایک ہی بلعام بن باعور نہیں تھا جس کی مثال دی جائے۔ اوپر یہود کی تفصیل کے ساتھ جو سرگزشت بیان ہوئی ہے اس سے خود واضح ہے کہ یہ پوری قوم کی قوم ہی شروع سے ہی بلعام بن باعور بنی رہی ہے۔ انسلاخ کے معنی کپڑے اتار کر ننگے ہوجانے کے ہیں۔ انسلخ من ثیابہ، تجرد، یعنی اللہ تعالیٰ نے تو ان کو اپنی کتاب کی تشریف و خلعت سے نوازا لیکن انہوں نے یہ اتار پھینکی اور بالکل ننگے الف بن کر رہ گئے۔
Top