Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 56
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور لَا تُفْسِدُوْا : نہ فساد مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح وَادْعُوْهُ : اور اسے پکارو خَوْفًا : ڈرتے وَّطَمَعًا : اور امید رکھتے اِنَّ : بیشک رَحْمَتَ : رحمت اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ : قریب مِّنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان (نیکی) کرنیوالے
اور ملک میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ برپاکرو اور اسی کو پکارو بیم و رجا دونوں حالتوں میں، بیشک اللہ کی رحمت نیکو کاروں سے قریب ہے
وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۭاِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ۔ یہ اوپر والے مضمون ہی کی تاکید و توثیق منفی پہلو سے ہے۔ یعنی اپنے رب اسے انحراف اختیار کر کے اس زمین میں فساد برپا نہ کرو۔ قرآن میں مختلف پہلوؤں سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کچھ اور الٰہ ہوتے تو یہ درہم برہم ہو کر رہ جاتے، یہ تو قائم ہی اس بنا پر ہیں کہ ان کے اندر اللہ کے ارادے کے سوا کسی اور ارادے کی کار فرمائی نہیں ہے۔ اس تکوینی توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ بندے اپنے دائرہ اختیار میں بھی صرف اسی اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت و اطاعت کریں، کسی اور کو اس عبادت و اطاعت میں شریک نہ بنائیں ورنہ اس زمین کا سارا نظام عدل و شریعت درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ اس کائنات کے قیام و بقا کے لیے جس طرح تکوینی توحید ناگزیر ہے اسی طرح اس زمین کے امن و عدل کے لیے خدا کی تشریعی توحید بھی لازمی ہے۔ خدا کے ملک میں کسی اور کو الہ و معبود بنانا اس کے ملک میں فساد و بغاوت برپا کرنا ہے جس سے بڑا کوئی اور جرم نہیں۔ لا تفسدوا کے ساتھ بعد اصلاحہا کی قید اس فعل کی شناعت کے اظہار کے لیے ہے۔ یعنی ملک میں فساد پیدا کرنا بجائے خود سب سے بڑا جرم ہے لیکن یہ جرم سنگین سے سنگین تر ہوجاتا ہے جب یہ اصلاح کے بعد واقع ہو اس لیے کہ یہ بگڑی ہوئی چیز کو بگاڑنا نہیں بلکہ بنی ہوئی چیز کو بگاڑنا ہوا۔ کائنات کے صلاح و فساد کی بنیاد : یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ خالق کائنات نے جب اس دنیا کو بنایا تو اس کو بنا کر یوں ہی انتشار اور بد امنی کے حال میں چھور نہیں دیا بلکہ آدم اور ان کی ذریت کو اس دنیا میں بھیجنے سے پہلے ہی ان سے توحید یعنی اپنی ہی عبادت اور اپنی ہی اطاعت کا اقرار لیا۔ اس کا ذکر اسی سورة کی آیات 172، 173 میں آگے آ رہا ہے۔ پھر ذریعت آدم سے، جیسا کہ آیت 35، 36 میں گزرا، یہ وعدہ فرمایا کہ تمہاری ہدایت کے لیے میں اپنے رسول بھیجوں گا، تم ان کی پیروی کرنا، جو ان کی پیروی کریں گے وہ فلاح پائیں گے، جو تکبر کر کے ان سے اعراض کریں گے وہ ہلاک ہوں گے۔ پھر اپنے اس وعدے کے بموجب اللہ تعالیٰ نے برابر اپنے رسول بھیجے جن کی تفصیل آگے آیت 59 سے 92 تک آرہی ہے۔ ان رسولوں کی سرگزشت میں، جیسا کہ آیت 69، 74، 85، 100، 102 سے واضح ہوگا، یہ دکھایا ہے کہ اولاد آدم کے مختلف گروہوں نے جب جب اللہ کی صراط مستقیم سے ہٹ کر اس دنیا میں فساد برپا کیا ہے خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے ان کو انذار کیا ہے اور جب انہوں نے اس انذار کی پروا نہیں کی ہے تو خدا نے ان کی جڑ کاٹ دی ہے اور ان کی خلافت دوسروں کو سونپی ہے کہ دیکھے وہ اس خلافتکا حق کس طرح ادا کرتے ہیں۔ اس طرح یہ دنیا بار بار شیطان اور اس کی ذریات کی کوششوں سے بگڑی ہے اور بار بار انبیا و مصلحین کے ذریعہ سے اس کی اصلاح ہوئی ہے۔ اس پہلو سے معاملہ پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں جس قوم کو بھی اپنے پچھلوں کی خلافت ملی ہے ایک فساد کو مٹا کر اس کی اصلاح کی شکل میں ملی ہے اور اگر خلافت پانے والی قوم نے خلافت پا کر اس میں فساد برپا کیا ہے تو یہ اس نے ایک بگڑی ہوئی چیز کو نہیں بگاڑا ہے بلکہ ایک بنی ہوئی چیز کو بگاڑا ہے اور یہ چیز اس کے جرم کو سنگین سے سنگین تو بنا دیتی ہے۔ اجتماعی مصلحین کا ایک مغالطہ : جہاں تک رسولوں کا تعلق ہے ان کے اور ان کی امتوں کے باب میں مذکورہ بالا اصول بالکل اٹل ہے، ان کے ذریعہ سے حق سورج کی طرح چمکتا ہوا نمایاں ہوتا ہے اس وجہ سے ان کے ہاتھوں جو نظام مٹتا ہے وہ باطل ہوتا ہے، جو قائم ہوتا ہے وہ حق ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بعد رسالت کا سلسلہ ختم ہوگیا لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آج قوموں کے عروج وزوال کے معاملے میں قدرت کا قانون بدل گیا۔ آج بھی اگر کوئی قوم مٹتی ہے تو اتفاق سے نہیں مٹتی اور اگر کوئی قوم عروج پر آتی ہے تو اتفاق سے نہیں آجاتی بلکہ ایک کے زوال اور دوسرے کے عروج میں اصلاً اخلاقی عوامل ہی کام کرتے ہیں لیکن کسی قوم کا چند زندگی بخش عوامل اخلاقی کے سہارے عروج پر آجانا ایک اور چیز ہے اور کسی نظام کا حق ہونا ایک دوسری چیز کسی قوم کا عروج اس بات کی دلیل تو ضرور ہے کہ اس کے اندر مغلوب و مفتوح قوم کے مقابل میں زندگی بخش عوامل اخلاقی زیادہ ہیں لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ یہ قوم اور اس کا نظام سو فی صد حق ہے۔ ہمارے بہت سے اجتماعی مصلحین کو یہ اصول سمجھنے میں سخت مغالطہپیش آیا ہے جس کے سبب سے وہ افراط وتفریط میں متبلا ہوگئے۔ جو لوگ قومی تعصب میں مبتلا رہے، انہوں نے ہمیشہ غالب قوم کے غلبہ کو اس کی چیرہ دستی اور کیا دی پر محمول کیا، وہ اپنے تعصب کے سبب سے نہ تو اس اخلاقی برتری کو دیکھ سکے جو غالب قوم کے اندر موجود تھی اور نہ اس اخلاقی ضعف پر ان کی نظر پڑی جو ان کے اپنے اندر پایا جاتا تھا۔ اسی طرح جو لوگ مرعوب ذہن کے تھے انہوں نے ہر غالب کے غلبہ کو اس کے برحق ہونے کی دلیل سمجھا اور اس کے ہاتھوں جو فساد و باطل بھی دنیا میں برپا ہوگیا اسی کو نظام حق سمجھ کر اس کے گن گانے لگے۔ اس افراط وتفریط کا اثر قوموں کی تاریخ پر یہ پڑا کہ وہ بالکل غلط طریقہ پر مرتب ہوگئی جس سے صحیح نتائج نکالنا اور ان سے اجتماعی اصلاح میں فائدہ اٹھانا ناممکن ہوگیا۔ یہاں ہم اس اشارے پر کفایت کرتے ہیں۔ انشاء اللہ سورة روم کی تفسیر میں ہم اس پر شرح و بسط سے بحث کریں گے۔ امید اور بیم دونوں میں مرجع خدا ہی ہے۔ وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۭاِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ یہ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً کا مقابل جملہ ہے اس میں خدا کو پکارنے کی ہیئت بتائی تھی جو استکبار کی ضد ہے۔ اب یہ خدا کے پکارنے کے محرک کی وضاحت فرمائی جس سے شرک کے ہر جرثومہ کی جڑ کٹ گئی ہے۔ استکبار خدا سے بےپروا کرتا ہے۔ اگر اس کا سر کچل جائے تو انسان کے اندر فقر پیدا ہوتا ہے اور یہ فقر بندے کو خدا سے جوڑتا ہے۔ اس فقر کے دو پہلو ہیں۔ ایک خوف، دوسرا طمع، اپنے لفظوں میں ان کو امید و بیم سے تعبیر کرلیجیے۔ انسان کے اندرونی داعیات بھی انہی دو قسمیں منقسم ہیں اور اس کے خارجی عوامل و محرکات کا بھی تجزیہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ وہ بھی یا تو بیم کے تحت آتے ہیں یا امید کے تحت۔ ہم بہت سی چیزیں، مادی اور معنوی دونوں قسم کی، چاہتے ہیں ان کے ارمان رکھتے ہیں، ان کے آرزو مند ہیں، اسی طرح بہت سی چیزیں ہیں، مادی اور معنوی دونوں قسم کی، جن سے گریز کرنا چاہتے ہیں، جن سے اندیشہ رکھتے ہیں، جن کو دفع کرنا چاہتے ہیں، قرآن ان دونوں ہی حالتوں کے لیے توحید کا تقاضا یہ بتاتا ہے کہ انسان صرف اللہ ہی کو اپنا مرجع و مولی بنائے۔ جو کچھ چاہے اس کے لیے بھی خدا ہی سے رجوع کرے، جن سے اندیشہ محسوس کرے اس سے بچنے کے لیے بھی خدا ہی کی پناہ ڈھونڈے، اس لیے کہ دینے والا بھی وہی ہے، روکنے والا بھی وہی ہے، اس کے سوا نہ کوئی کسی خیر سے بہرہ مند کرسکتا، نہ کسی شر سے بچا سکتا۔ نیز خیر و شر کی معرفت کا حقیقی معیار بھی وہی ہے، امید و بیم دونوں میں اگر خدا ہی مرجع ہو اور اسی کی مرضی مطلوب ہو تو انسان کو یہ معین کرنے میں ذرا زحمت پیش نہیں آسکتی کہ کیا چیز چاہنے کی ہے اور اسے کس طرح چاہنا چاہیے اور کیا چیز بچنے کی ہے اور اس سے کس طرح بچنا چاہیے۔ ایہ امر ملحوظ رہے کہ خوف اور طمع یہ دونوں ہی گھاٹیاں بری خطرناک ہیں۔ شیطان ان دونوں ہی سے انسان پر شب خون مارتا ہے اور کسی نہ کسی شرک جلی یا خفی میں لوگوں کو مبتلا کر کے رہتا ہے۔ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ کے اسلوب بیان سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو لوگ اپنی امید و بیم دونوں کا مرجع اپنے رب کو بنا لیں وہ درحقیقت محسن یعنی خوب کار ہیں اور اللہ کی رحمت ایسے خوب کاروں سے بہت قریب ہے۔ معلوم ہوا کہ مقام احسان پر فائز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان بیم و رجا دونوں حالتوں میں اپنے رب کی طرف یکسو ہو۔ اگر یہ یکسوئی حاصل نہ ہو تو وہ مقام احسان سے دور ہے اور جو مقام احسان سے دور ہے وہ خدا کی رحمت سے بھی دور ہے۔ خدا کی رحمت قریب محسنین سے ہے۔ وہ جب کسی امید یا بیم میں اس کو پکارتے ہیں وہ اپنی رحمت سے ان کو بہرہ مند فرماتا ہے۔ یہاں زبان کا یہ قاعدہ ملحوظ رہے کہ لفظ رحمت کی تانیث چونکہ غیر حقیقی ہے اس وجہ سے خبر کو مونث لانا ضروری نہیں ہوا۔ نیز فعیل کا وزن بعض حالات میں مذکر و مونث دونوں کے لیے یکساں آتا ہے۔
Top