Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا : پکارو رَبَّكُمْ : اپنے رب کو تَضَرُّعًا : گر گڑا کر وَّخُفْيَةً : اور آہستہ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے گزرنے والے
اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، بیشک وہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ۭاِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۔ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً۔ تضرع، ضراعت سے ہے۔ اس کے معنی عاجزی، خوشامد، لجاجت، تملق کے اظہار کے ہیں۔ یہ اظہار حرکات اور اداؤں سے بھی ہوتا ہے اور الفاظ و عبارات سے بھی۔ اس کی سب سے زیادہ موثر شکل وہ ہوتی ہے جب یہ الفاظ وحرکات دونوں میں کامل ہم آہنگی کے ساتھ نمایاں ہوں جس کی بہترین شکل اسلام میں نماز ہے۔ باوضو ہو کر مودب کھڑا ہونا، ہاتھ باندھ لینا، سر نہیوڑا دینا، گھٹنے ٹیک دینا، ناک اور پیشانی خاک پر رکھ دینا، یہ تضرع کی حرکات اور ادائیں ہیں اور ان مختلف حرکات اور اداؤں کے ساتھ جو دعائیں اور تسبیحات پڑھی جاتی ہیں یہ سب اسی تضرع کی معنوی تعبیریں ہیں۔ خُفْيَةً کے معنی چپکے ہیں، یہ تضرع کے آداب میں سے ہے جو تضرع کے اخلاص کا بھی ضامن ہے اور اس کے وقار کا بھی۔ جو کام چپکے چپکے کیا جاتا ہے وہ ریا کے فتنہ سے محفوط ہوتا ہے اور خدا چونکہ ہر چیز سنتا اور جانتا ہے اس وجہ سے اس کو سنانے اور اس سے فریاد کرنے کے لیے چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ملحوظ رہے کہ خفیۃ کا لفظ صرف ریا اور سورء ادب کے سد باب کے لیے ہے۔ اس سے اس جہر کی نفی نہیں ہوتی جو جماعتی دعاؤں یا بعض اوقات بندہ اپنی انفرادی مناجاتوں میں اختیار کرتا ہے۔ یہ جہر کی نفی نہیں بلکہ صرف اعتدال کی تاکید ہے۔ اس مضمون کی وضاحت انشاء اللہ بنی اسرائیل کی آیت، ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بہا وابتغ بین ذلک سبیلا کے تحت آئے گی۔ انسان کو نظام کائنات کا درس : الفاط کی وضاحت کے بعد اب آیت کے موقع و محل اور اس کے مفہوم پر غور فرمائیے۔ اوپر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ خدا ہی آسمان و زمین کا خالق ہے، اسی کے حکم سے ستارے اور سیارے گردش کر رہے ہیں، خلق اور امر سب اسی کے اختیار میں ہے اور وہ بڑی ہی بافیض و بابرکت ہستی ہے۔ اب یہ ادعوا ربکم سے وہ حق اور فرض بیان ہو رہا ہے جو اس رب عظیم و کریم کا بندوں پر عاید ہوتا ہے۔ وہ حق و فرض یہ ہے کہ اپنے اسی رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے۔ یعنی یہ استکبار اور یہ رعونت جس کا اظہار تمہاری طرف سے ہو رہا ہے یہ روش تمہارے لیے زیبا نہیں ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز خدا کے آگے سرفگندہ و سرنگوں اور اس کے حکم کی تعمیل میں سرگرم تگاپو ہے تو تمہاری کیا ہستی ہے کہ خدا کے آگے اکڑو اور سر اٹھاؤ۔rnۭاِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۔ خدا ان لوگوں کو کبھی پسند نہیں کرتا جو اس کے حدود سے تجاوز کریں۔ یہ نظام کائنات شاہد ہے کہ وہ کسی چیز کو اس کے حدود سے انحراف کی اجازت نہیں دیتا اور اس دنیا کی تاریخ بھی شاہد ہے کہ اس نے کبھی اکڑنے والوں اور حدود سے تجاوز کرنے والوں کو ایک حد خاص سے زیادہ مہلت نہیں دی۔
Top