بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - An-Naba : 1
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ
عَمَّ : کس چیز کے بارے میں يَتَسَآءَلُوْنَ : وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں
یہ لوگ کس چیز کے بارے میں چہ میگوئیاں کررہے ہیں ؟
’عَمَّ‘ دراصل ہے تو ’عَمَّا‘ لیکن عام استعمال میں جس طرح بعض حروف کی آواز دب جاتی ہے اسی طرح ’عَمَّا‘ سے بھی ’الف‘ ساقط ہو گیا ہے اور یہ اسی طرح استعمال ہوتا ہے۔ منکرین قیامت کا استہزاء: ’تَسَاءُ لٌ‘ کے معنی آپس میں کسی چیز سے متعلق پوچھ گچھ کرنے کے ہیں۔ پوچھ گچھ دریافت حال اور تحقیق کے لیے بھی ہوتی ہے اور بعض اوقات محض سخن گستری اور استہزاء کے لیے بھی۔ یہاں یہ استہزاء کے مفہوم میں ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ ذکر ہے کہ نبی ﷺ نے قریش کو جب انذار قیامت پر مشتمل سورتیں سنائیں تو لب و لہجہ کی حرارت، انداز بیان کی سطوت و ہیبت اور دلائل کی قطعیت نے ان کا چرچا بہت جلد ہر حلقہ میں پھیلا دیا۔ قریش نے اپنے عوام کو اس کے اثر سے بچانے کے لیے جہاں بہت سی احمقانہ تدبیریں اختیار کیں وہاں یہ اوچھی تدبیر بھی اختیار کی کہ اپنی مجالس میں اس کو اپنے مذاق اور طبع آزمائی کا موضوع بنا لیا تاکہ لوگوں پر یہ اثر ڈالیں کہ یہ چیز کسی سنجیدہ غور و فکر کے لائق نہیں ہے بلکہ محض خیالی ہوّا ہے جس سے متاثر ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ بعض نے کہا کہ بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ جب لوگ مر کر سڑ گل جائیں گے تو وہ ازسرنو زندہ کیے جائیں! بعض نے اس پر گرہ لگائی کہ کیا بھلا ہمارے اگلے بھی اٹھائے جائیں گے جو نہیں معلوم کب پیوند زمین ہوئے اور ان کی قبروں کا کوئی نشان بھی باقی نہیں رہا! تیسرے نے پرزور لہجہ میں اس کی تائید کی کہ ناممکن، ناممکن، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، یہ سب محض خیالی باتیں ہیں۔ دوزخ اور اس کی آگ کا یوں مذاق اڑاتے کہ خوب ہو گی وہ آگ جس میں پانی بھی ہو گا اور درخت بھی! دوسرا اس نکتہ پر اس کو داد دیتا کہ بھلا یہ باتیں کسی کی عقل میں سمانے والی ہیں۔ جب قرآن نے ان کو آگاہ کیا کہ دوزخ پر انیس سرہنگ مامور ہوں گے تو اس کو انھوں نے اپنی طبع آزمائی کا موضوع بنا لیا۔ کوئی بولا کہ اگر اتنے ہی ہوں گے تو ان میں سے اتنوں سے تو میں تنہا نمٹ لینے کے لیے کافی ہوں۔ دوسرے نے ڈینگ ہانکی کہ پھر کوئی اندیشہ کی بات نہیں ہے، باقی سے نمٹنے کے لیے میں کمزور نہیں ہوں! غرض قیامت اور اس کے احوال سے متعلق جو باتیں بھی ان کو سنائی گئیں ان سے سبق لینے کے بجائے انھوں نے ان کو مذاق میں اڑا دینے کی کوشش کی تاکہ ان کے عوام ان سے متاثر نہ ہونے پائیں ان کی اسی طرح کی باتوں کو یہاں ’تَسَاءُ لٌ‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور نہایت تیز و تند انداز میں پوچھا ہے کہ یہ لوگ کس چیز کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہے ہیں۔ اس سوال سے اس سورہ کا آغاز اس کے مزاج کا پتہ دے رہا ہے کہ اس میں ان کو بتایا جائے گا کہ جس چیز کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں وہ مذاق اڑانے اور ہنسی دل لگی کی چیز نہیں بلکہ وہ سوچیں تو ان کے لیے سر پیٹنے اور خون کے آنسو بہانے کی چیز ہے۔
Top