Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 30
وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَ١ؕ وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ
وَاِذْ : اور جب يَمْكُرُ بِكَ : خفیہ تدبیریں کرتے تھے آپ کے بارہ میں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) لِيُثْبِتُوْكَ : تمہیں قید کرلیں اَوْ يَقْتُلُوْكَ : یا قتل کردیں تمہیں اَوْ يُخْرِجُوْكَ : یا نکال دیں تمہیں وَيَمْكُرُوْنَ : اور وہ خفیہ تدبیریں کرتے تھے وَيَمْكُرُ اللّٰهُ : اور خفیہ تدبیریں کرتا ہے اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہترین الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنے والا
خیال کرو جبکہ کفار تمہارے باب میں سازش کر رہے تھے کہ تم کو قید کردیں یا قتل کردیں یا جلا وطن کردیں۔ وہ سازش کر رہے تھے اور اللہ بھی تدبیر فرما رہا تھا اللہ بہترین تدبیر فرمانے والا ہے
وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ ۭوَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ ۭوَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۔ اثبات کا اصل لغوی مفہوم پابند کردینا، روک دینا ہے، جس میں قید کردینا بھی شامل ہے۔ قریش کی سازشوں کی طرف اشارہ : یہ دار الندوہ کی اس سازش کی طرف اشارہ ہے جو قریش کے لیڈروں نے آپ کی دعوت حق کو یک قلم ختم کردینے کے لیے کی۔ اس کے لیے مختلف لیڈروں کی طرف سے مختلف تجویزیں پیش ہوئی۔ تاریخ و سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غور و بحث کے بعد قتل کی تجویز پر اتفاق ہوا اور قتل کی یہ تدبیر سوچی گئی کہ قریش کے تمام بڑے خاندان اس میں شریک ہوں تاکہ آنحضرت ﷺ کے خاندان کے لوگ قصاص کا مطالبہ کرنے کی ہمت نہ کرسکیں۔ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ کا مفہوم : ۭوَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ ۭوَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ ، لفظ مکر پر آل عمران آیت 54 کے تحت بحث گزر چکی ہے۔ وہاں ہم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اللہ جل شانہ کی طرف جب اس کی نسبت ہوتی ہے تو اس کا مفہوم کیا ہوتا ہے۔ خیر المکرین میں ایک پہلو تو یہ ہے کہ خدا کی تدبیر دوسروں کی سازشوں پر ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ ظاہراً اس تدبیر کو دشمن اپنی ہی فتح مندی کیوں نہ تصور کرلے لیکن بالآخر وہ حق کی فتح مندی کے نہایت وسیع دروازے کھول دیتی ہے۔ اس کی بہترین مثال خود یہ واقعہ ہجرت ہے۔ قریش نے آنحضرت ﷺ کی ہجرت کے بعد اطمینان کا سانس لیا کہ چلو پہلو کا کانٹا نکل گیا لیکن جلد ہی حالات نے ثابت کردیا کہ کانٹا نہیں نکلا بلکہ ان کے جسد قومی کی روح نکل گئی۔ اس کے بعد اسلام کو نشوونما کے لیے آزاد فضا مل گئی اور قریش مکہ میں، جیسا کہ تفصیل آگے آرہی ہے، اپنی قضائے مبرم کے انتظار کے لیے رہ گئے۔ وعدہ فرقان کی تاکید مزید : یہاں اس واقعہ کو یاد دلانے سے مقصود اسی وعدہ فرقان کو مؤکد کرنا ہے جس کا ذکر اوپر والی آیت میں آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ دیکھنا چاہو کہ خدا انی تدبیر و کارسازی سے کس طرح ناموافق حالات کو موافق اور مخالف ہواؤں کو ساز گار بنا دیتا ہے تو اس کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہارے پیغمبر کی زندگی خود اس کی سب سے بڑی شہادت ہے۔ ایک وقت تھا جب اسلام کی قسمت صرف پیغمبر کے وجود اقدس اور چند بےیارو مددگار نفوس کے ساتھ وابستہ تھی۔ قریش نے فیصلہ کیا کہ پیغمبر کو قتل کردیں کہ سارا قصہ ہی تمام ہوجائے۔ اس کے لیے سب نے متفق ہو کر سازش کی لیکن اللہ نے ایسی تدبیر فرمائی کہ پیغمبر اپنے خونی دشمنوں کی آنکھوں میں خاک جھونک کر نکل آئے اور کوئی ان کا بال بیکا نہ کرسکا۔ پھر صرف یہی نہیں ہوا کہ پیغمبر نکل آئے بلکہ واقعات نے ثابت کردیا کہ سورج گہن سے نکل آیا۔ قریش سمجھے کہ جب پیغمبر اپنی قوم سے جلا وطن ہو کر کسی غیر قوم میں چلے جائیں گے تو ان کی دعوت ایک اجنبی ماحول میں خود بخود مر جائے گی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی کارسازی سے دکھا دیا کہ اسلام کے پودے کی نشوونما کے لیے سب سے زیادہ زرخیز اور مہر پرور سرزمین یثرب ہی کی سرزمین تھی جس کی طرف کفار نے خود اسلام کو دھکیل کر بھیجا۔ خدا اپنی اسکیمیں اسی طرح بروئے کار لاتا ہے۔ دشمن سمجھتا ہے کہ بازی اس نے جیتی، لیکن حقیقت میں داؤں خدا کا کامیاب ہوتا ہے۔ وہ حق کے دشمنوں ہی کے ہاتھوں جب چاہتا ہے وہ کام کرا دیتا ہے جس میں حق کی فتح مندی اور خود دشمن کی موت مضمر ہوتی ہے تو موجودہ نامساعد حالات سے ہراساں نہ ہو۔ خیر الماکرین خدا پر بھروسہ رکھو۔ انہی تاریکیوں کے پردے سے بہت نیز و فرقان برآمد ہونے والا ہے۔ خطاب کی ایک بلاغت : اس آیت کا خطاب، جیسا کہ واذ یمکر بک سے واضح ہے اگرچہ آنحضرت ﷺ ہے لیکن اپنے موقع و محل اور اپنے مدعا کے اعتبار سے دو پہلو رکھتی ہے۔ ایک پہلو سے یہ اوپر کے مضمون سے جڑتی ہے، دوسرے پہلو سے آگے آنے والے مضمون کی تمہید ہے جس میں آنحضرت ﷺ کو خطاب کر کے یہ بات سمجھائی جا رہی ہے کہ اب تک قریش جو عذاب کا مطالبہ کر رہے تھے اور ہم طرح دیے جا رہے تھے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ہم بےبس تھے بلکہ یہ تھی کہ تم ان کے اندر موجود تھے لیکن اب جب کہ تم ان کے اندر سے نکل گئے تو اب کون سی چیز ہے جو ان کو ہمارے تازیانہ عذاب سے بچا سکتی ہے ؟ اب تو امان کی سپر سے انہوں نے خود اپنے کو محروم کرلیا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ پسند فرمایا کہ اس نازک موقع پر وہ اپنے پیغمبر پر یہ واضح فرما دے کہ اس کا مرتبہ و مقام اللہ کی نظروں میں کیا ہے، اس وجہ سے تقاضائے بلاغت یہ ہوا کہ یہاں اس کو براہ راست مخاطب کر کے یہ بات کہہ دی جائے کہ غم نہ کرو کہ انہوں نے تم کو نکال دیا ہے، یہ تو تمہارے ہی صدقے میں جی رہے تھے۔ اب یہ دیکھ لیں گے کہ ہم ان کی کیسی مرت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس سے اس فرقان کے ظہور کی بشارت بھی امت کو دے دی گئی جس کی طرف اوپر اشارہ ہوا۔
Top