Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaashiya : 18
وَ اِلَى السَّمَآءِ كَیْفَ رُفِعَتْٙ
وَاِلَى السَّمَآءِ : اور آسمان کی طرف كَيْفَ رُفِعَتْ : کیسے بلند کیا گیا
اور آسمان کو نہیں دیکھتے، کیسا اونچا کیا گیا !
آسمان کی طرف اشارہ: ’وَإِلَی السَّمَآءِ کَیْفَ رُفِعَتْ‘۔ چونکہ مقصود یہاں، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، نمایاں چیزوں کی طرف متوجہ کرنا ہے اس وجہ سے اونٹ جیسے طویل القامت جانور کا ذکر آیا تو وہیں سے آسمان کی طرف توجہ دلا دی ہے کہ وہ آسمان پر کیوں نہیں غور کرتے کہ کس طرح یہ چھت بلند کی گئی! یعنی ایسی ناپیداکنار چھت بلند تو ہو گئی لیکن کسی کو وہ ستون نظر نہیں آتے جن پر یہ قائم ہے۔ پھر اس سے بھی عجیب یہ ماجرا ہے کہ نہیں معلوم کہ کب سے یہ قائم ہے، لیکن کوئی ماہر سے ماہر انجینئر بھی کسی بڑی سے بڑی دوربین کی مدد سے بھی، اس میں کسی معمولی سے معمولی رخنہ یا خلا کی نشان دہی نہیں کر سکتا۔ پھر اس سے بھی عجیب تر ماجرا یہ ہے کہ ہے تو یہ زمین سے اتنی دور کہ اس کی مسافت کا علم کسی کو نہیں لیکن اسی کے سورج، چاند، ستارے اور سیارے زمین کی رونق اور اس کے لیے روشنی، حرارت اور زندگی کا ذریعہ ہیں۔ اسی سے بارش نازل ہوتی ہے جس سے زمین کی تمام مخلوقات کو روزی حاصل ہوتی ہے۔ انسان سوچے کہ جس خالق کی قدرت و حکمت کا یہ حال ہے کہ وہ آسمان کو بنا سکتا ہے، کیا اس کے مرکھپ جانے کے بعد دوبارہ اس کو اٹھا کھڑا کرنا اس کے لیے مشکل ہو جائے گا! چنانچہ قرآن میں جگہ جگہ یہ سوال اللہ تعالیٰ نے کیا ہے کہ بتاؤ، تمہارا پیدا کیا جانا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کا؟
Top