Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 53
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا١ۚ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَآءَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْمُشْرِكُوْنَ : مشرک (جمع) نَجَسٌ : پلید فَلَا يَقْرَبُوا : لہٰذا وہ قریب نہ جائیں الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ : مسجد حرام بَعْدَ : بعد عَامِهِمْ : سال هٰذَا : اس وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تمہیں ڈر ہو عَيْلَةً : محتاجی فَسَوْفَ : تو جلد يُغْنِيْكُمُ : تمہیں غنی کردے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖٓ : اپنا فضل اِنْ : بیشک شَآءَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اے ایمان والو، یہ مشرکین بالکل نجس ہیں تو یہ اپنے اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس نہ پھٹکنے پائیں اور اگر تمہیں معاشی بدحالی کا اندیشہ ہو تو اللہ اگر چاہے گا تو اپنے فضل سے تم کو مستغنی کردے گا۔ بیشک اللہ علیم و حکیم ہے
اعلان براءت کے سلسلہ کی آخری ہدایت، مشرکین کو مسجد حرام کے پاس آنے کی ممانعت : يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا۔ یہ اس اعلان براءت کے سلسلہ کی آخری ہدایت ہے جس کا ذکر شروع سے چلا آ رہا ہے۔ فرمایا کہ یہ مشرکین نجس ہیں اس وجہ سے اس سال کے بعد سے یہ مسجد حرام کے پاس پھٹکنے نہ پائیں۔ نجاست سے مراد ظاہر ہے کہ یہاں وہ عقائدی نجاست مراد ہے جس کی تفصیلات دوسرے مقامات میں بیان ہوچکی ہیں۔ فتح مکہ کے بعد بیت اللہ پر سے مشرکین کا تسلط تو ختم ہوچکا تھا۔ لیکن سن 9 ہجری کے حج تک ان کو یہ مہلت حاصل رہی کہ وہ حج کے لیے آتے اور اپنے جاہلی طریقے کے مطابق حج کے مراسم بھی ادا کرتے اور تجارتی خریدو فروخت بھی کرتے لیکن اسی حج کے موقع پر اعلان براءت کی عام منادی کے ساتھ ساتھ اس حکم کے بموجب یہ اعلان بھی کردیا گیا کہ آئندہ سے مشرکین حج کے لیے نہ آئیں۔ یہ گویا حجۃ الوداع کی تیاریوں کی تمہید تھی کہ سن 10 ہجری میں جب خود سرور دو عالم ﷺ حج ادا فرمائی تو مرکز ابراہیم شرک و کفر کی ہر آلائش سے بالکل پاک ہو۔ تجارتی کساد بازاری کے اندیشے کا ازالہ : وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖٓ اِنْ شَاۗءَ الایہ۔ عیلہ کے معنی فقر و مفلسی کے ہیں۔ یہاں یہ معاشی اور تجارتی نقصان کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ ہم دوسرے مقام میں تفصیل سے بیان کر آئے ہیں کہ حج کو جس طرح ایک بہت بڑی مذہبی عبادت کی حیثیت حاصل تھی اسی طرح تجارتی اور کاروباری پہلو سے بھی اس کی بڑی اہمیت تھی۔ اس موسم باہر کا مال مکہ میں پہنچتا اور مکہ کی چیزیں باہر کے تاجر خریدتے۔ زمانہ جاہلیت میں اس کے کاروباری پہلو کو اتنی اہمیت حاصل ہوگئی تھی کہ قریش نے نسیئ کا قاعدہ ایجاد کر کے حج کو ایک خاص موسم میں کردیا تھا تاکہ موسموں کا تغیر تجارتی چہل پہل پر اثر انداز نہ ہو۔ اب اسلام کے دور میں آ کر جب یہ اعلان ہوا کہ آئندہ مشرکین حج کے لیے نہیں آسکتے تو ان لوگوں کو تشویش لاحق ہوئی جو کاروباری زندگی سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے خیال کیا کہ مشرکین کو روک دینے سے کاروبار اور تجارت پر بڑا اثر پڑے گا جس سے مسلمانوں کو معاشی حالت خراب سے خراب تر ہوجائے گی۔ ان لوگوں کو مطئن کرنے کے لیے فرمایا کہ معاشی بدحالی کا غم نہ کرو۔ اللہ اگر چاہے گا تو اپنے فضل سے تمہیں غنی کردے گا۔ چناچہ یہ واقعہ ہے کہ یہ وعدہ پورا ہوا اور اس طرح پورا ہوا کہ ایک دن کے لیے بھی مکہ کی تجارت اس بندش سے متاثر نہ ہوئی اور کچھ عرصہ بعد تو یہ حال ہوا کہ مصر و شام اور روم و ایران کے خزانے بھی اونٹوں پر لد لد کر اسلام کے بیت المال میں پہنچنے لگے اور اللہ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو اس طرح غنی کردیا کہ لوگ اپنی زکوۃ کا مال مدینہ کی گلیوں میں لیے پھرتے تھے لیکن اس کا کوئی لینے والا نہیں ملتا تھا۔ اصلی قدر و قیمت ایمانی اقدار کی ہے : ان شاء۔ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ چیز بہرحال اللہ ہی کی مشیت اس کے علم و حکمت پر مبنی ہے۔ تنگی یا کشادگی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں، اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ اس وجہ سے اصل بھروسہ اللہ ہی پر ہونا چاہیے جس کا ہر کام علم و حکمت پر مبنی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام میں اصلی قدر و قیمت روحانی و ایمانی اقدار کی ہے۔ سیاسی اور معاشی مصالح ان کے تحت ہیں۔ ایمانی اقدار کے لیے معاشی مصالح قربان کیے جاسکتے ہیں لیکن پیٹ اور تن کے مفاد پر ایمان کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔
Top