Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
اے ایمان والون تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکول تو تم زمین پر ڈھئے پڑتے ہو۔ کیا تم آخرت کے مقابل میں دنیا کی زندگی پر قانع ہو بیٹھے ہو ؟ آخرت کے مقابلے میں یہ دنیا کی زندگی تو نہایت ہی حقیر ہے۔
آیات کا 38 تا 42 مضمون : اوپر مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف اعلان جہاد کردینے کے بعد آگے کلام کا رخ منافقین کی طرف مڑ گیا ہے اور آخر سورة تک انہی کا تعاقب فرمایا ہے۔ گویا کھلے ہوئے دشمنوں کے بعد اب یہ اسلام اور مسلمانوں کے چھپے ہوئے دشمنوں کی طرف توجہ فرمائی گئی ہے اور پوری تفصیل سے ان کی ایک ایک کمزور اور ایک ایک شرارت بےنقاب کر کے رکھ دی گئی ہے تاکہ مسلمان ان سے اچھی طرح آگاہ ہوجائیں اور ان کے اٹھائے ہوئے فتنوں میں مبتلا نہ ہوں۔ اس سے پہلے منافقین کے رویہ پر جو تنقید بھی ہوئی اس کا لب وہ لہجہ نرم رہا ہے لیکن اس سورة میں جس طرح مشرکین اور اہل کتاب کے باب میں آخری فیصلہ کا علان کردیا گیا ہے اسی طرح منافقین کے بارے میں بھی ایک قطعی فیصلہ سنا دیا گیا ہے تاکہ ان میں سے جن کے اندر توبہ اور اصلاح کی کوئی صلاحیت باقی ہے وہ توبہ اور اصلاح کے لیے اسلام معاشرہ کے صالح جزو بن جائیں اور جو بالکل مردہ ہوچکے ہیں وہ خس و خاشاک کے اس ڈھیر میں شامل ہوجائیں جس کے صاف کردینے کا آخری فیصلہ قدرت کی طرف سے ہوچکا ہے۔ آیات کی تلاوت فرمائیے۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ ۭ اَرَضِيْتُمْ بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ نفار، نفور، نفیر کے معنی جنگ یا اسی نوع کے کسی اور مقصد کے لیے نکلنے اور اٹھنے کے ہیں۔ تثاقل اور اثاقل ایک ہی لفظ ہے۔ معنی اس کے کسی شے کو بوجھ محسوس کرنا اور لدھڑ بن جانا ہے۔ اس کے ساتھ الی الارض کے اضافہ نے مضمون کو بالکل مصور کردیا ہے کہ تمہیں جنگ کے واسطے اٹھنے کو کہا جاتا ہے اور تم لدھڑ بن کر زمین پر ڈھئے پڑ رہے ہو۔ منافقین سے خطاب : آیت میں خطاب اگرچہ عام ہے لیکن روئے سخن ان منافقین ہی کی طرف ہے جو اپنی تن آسانیوں اور مفاد پرستیوں کے سبب سے، جہاد کی منادی عام کے باوجود اس سے جی چرا رہے تھے۔ فرمایا کہ یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ ایمان کے مدعی ہو اور اس کے لیے بدیہی مطالبہ کے معاملے میں تمہارا حال یہ ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بھاری بوجھ نے تمہاری کمریں توڑ کے رکھ دی ہیں اور تمہارے لیے اٹھنا پہاڑ ہو رہا ہے۔ منافقین کی اصل بیماری حب دنیا : اَرَضِيْتُمْ بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ۔ یہ استفہام کے اسلوب میں ان کی اصل بیماری کا پتہ دیا گیا ہے کہ یہ آخرت سے صرف نظر کر کے صرف دنیا کی زندگی اور اس کی لذتوں اور راحتوں پر قانع ہوگئے ہیں۔ یہی دنیا ان کے لیے سب کچھ ہے۔ وہ اس عیش نقد کو کسی نسیہ کی خاطر منعض کرنا نہیں چاہتے حالانکہ آخرت میں جب حقیقت کھلے گی تب معلوم ہوگا کیسی حقیر چیز کے لیے کیسی لازوال بادشاہی انہوں نے کھو دی۔
Top