یعنی کیا یہ بات نہیں ہے کہ ہم نے تمہارا آوازہ بلند کیا! ’لَکَ‘ جس طرح پہلی آیت میں اختصاص، تائید اور نصرت کے اظہار کے لیے ہے اسی طرح یہاں بھی ہے۔ یعنی تمہاری تقویت و حوصلہ افزائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمہارا ذکر دور دور تک پھیلا دیا۔
دعوت کا چرچا اطراف و اکناف میں: اس آیت سے سورہ کا زمانۂ نزول معین ہوتا ہے کہ یہ اس دور میں اتری ہے جب آپ کی دعوت کا چرچا عرب کے اطراف و اکناف میں پھیلنے لگا ہے۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ مکہ کے سادات، جن کو نبی ﷺ نے سب سے پہلے دعوت دی، وہ تو ایک عرصہ تک دعوت اور داعی کی مخالفت پر جمے رہے لیکن حج کے موسم میں باہر کے جو لوگ آتے ان کے ذریعہ سے یہ دعوت مکہ کے اطراف، خصوصیت کے ساتھ مدینہ کے انصار میں پھیل گئی۔ پھر بالتدریج نہ صرف عرب کے دور و قریب کے قبائل بلکہ اطراف کے دوسرے ملکوں میں بھی اس کا ذکر پہنچ گیا اور یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں رہا کہ یہ آواز دبنے والی نہیں ہے بلکہ جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ بچہ بچہ کی زبان پر اس کا چرچا ہو گا اور گوشہ گوشہ ’اَللّٰہُ اَکْبَر‘ کی صدا سے گونج اٹھے گا۔