Tadabbur-e-Quran - Ash-Sharh : 5
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاۙ
فَاِنَّ : پس بیشک مَعَ : ساتھ الْعُسْرِ : دشواری يُسْرًا : آسانی
تو ہر مشکل کے ساتھ آسانی
اصل سبق: یہ وہ اصل سبق ہے جو اوپر کے پیش کر دہ شواہد کی روشنی میں دینا مقصود ہے اور جس کو اس سورہ کے عمود کی حیثیت حاصل ہے۔ فرمایا کہ جب تم اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ دیکھ رہے ہو تو اس کی اس سنت پر اطمینان رکھو کہ اس نے ’یُسْر‘ کا دامن ’عُسْر‘ کے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ یعنی آسانی ظاہر تو ہو گی ضرور لیکن آزمائش کے دور سے گزرنے کے بعد۔ سابق سورہ میں یہی حقیقت آفاق اور نبی ﷺ کی زندگی کے واقعات سے ثابت کی گئی ہے۔ اس سورہ میں خاص حضور کی زندگی کے تجربات ہی کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے تاکہ زیادہ موثر ہو سکیں۔ ایک خاص نکتہ: یہاں اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ ایک ہی بات دو مرتبہ فرمائی گئی ہے۔ یہ تکرار محض تاکید کے لیے نہیں، جیسا کہ عام طور پر لوگوں نے سمجھا ہے، بلکہ اس سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ یہ ’عُسْر‘ اور ’یُسْر‘ دونوں اس دنیا میں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک گھاٹی کسی نے پار کر لی تو یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ بس اب کسی نئی گھاٹی سے اس کو سابقہ نہیں پیش آنا ہے بلکہ دوسری اور تیسری گھاٹی بھی آ سکتی ہے۔ چاہیے کہ ان کو عبور کرنے کا حوصلہ بھی قائم رکھے۔ زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ اس جہان میں ہر مسافر کو نشیب و فراز سے سابقہ پیش آتا ہے اور ان سے گزرنے کے بعد ہی کوئی رہرو منزل مقصود پر پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی معاملہ حق کے راستہ پر چلنے والوں سے بھی ہے۔ جو لوگ اس راستہ پر چلنے کا ارادہ کرتے ہیں ان کے لیے یہ نہیں ہوتا کہ راہ سے تمام عقبات خود بخود دور ہو جائیں بلکہ ان کے دور کرنے کے لیے خود ان کو جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے یہ ضمانت ضرور ہے کہ اگر وہ راہ کی رکاوٹوں کے علی الرغم ہمت نہیں ہاریں گے اور جتنی قوت ان کے رب نے ان کو بخشی ہے اس کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں کریں گے تو وہ ان کے لیے ہر مشکل کے بعد آسانی پیدا کرے گا جس سے تازہ دم ہو کر وہ آگے کے سفر کے لیے مزید عزم و حوصلہ حاصل کر لیں گے اور ایک کے بعد دوسری مشکل سے لڑتے اور اس کو سر کرتے ہوئے بالآخر منزل مطلوب پر پہنچ جائیں گے۔ اس امتحان کی حکمت قرآن میں یہ بتائی گئی ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ منافق اور مخلص، راست باز اور ریاکار میں امتیاز کرتا ہے تاکہ ہر ایک اپنے اعمال کے مطابق جزا یا سزا پائے، کسی کو یہ شکایت نہ رہے کہ اس کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ اگر یہ امتحان نہ ہوتا تو کھوٹے اور کھرے میں وہ امتیاز نہ ہو سکتا جو ہر ایک پر حجت قائم کر دے۔
Top