Tafheem-ul-Quran - Hud : 46
قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَ١ۚ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ١ۖ٘ۗ فَلَا تَسْئَلْنِ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنِّیْۤ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
قَالَ : اس نے فرمایا يٰنُوْحُ : اے نوح اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيْسَ : نہیں مِنْ : سے اَهْلِكَ : تیرے گھر والے اِنَّهٗ : بیشک وہ عَمَلٌ : عمل غَيْرُ صَالِحٍ : ناشائستہ فَلَا تَسْئَلْنِ : سو مجھ سے سوال نہ کر مَا لَيْسَ : ایسی بات کہ نہیں لَكَ : تجھ کو بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنِّىْٓ اَعِظُكَ : بیشک میں نصیحت کرتا ہوں تجھے اَنْ : کہ تَكُوْنَ : تو ہوجائے مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : نادان (جمع)
جواب میں ارشاد ہوا”اے نُوح ؑ ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہُوا کام ہے49، لہٰذا تُو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تُو نہیں جانتا ، میں تجھے نصیحت کر تا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے۔50
سورة هُوْد 49 یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کے جسم کا کوئی عضو سڑ گیا ہو اور ڈاکٹر نے اس کو کاٹ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہو۔ اب وہ مریض ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ یہ تو میرے جسم کا ایک حصہ ہے اسے کیوں کاٹتے ہو۔ اور ڈاکٹر اس کے جواب میں کہتا ہے کہ یہ تمہارے جسم کا حصہ نہیں ہے کیوں کہ یہ سڑ چکا ہے۔ اس جواب کا مطلب یہ نہ ہوگا کہ فی الواقع وہ سڑا ہوا عضو جسم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہارے جسم کے لیے جو اعضا مطلوب ہیں وہ تندرست اور کارآمد اعضاء ہیں نہ کہ سڑے ہوئے اعضا جو خود بھی کسی کام کے نہ ہوں اور باقی جسم کو بھی خراب کردینے والے ہوں۔ لہٰذا جو عضو بگڑ چکا ہے وہ اب اس مقصد کے لحاظ سے تمہارے جسم کا ایک حصہ نہیں رہا جس کے لیے اعضاء سے جسم کا تعلق مطلوب ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک صالح باپ سے یہ کہنا کہ یہ بیٹا تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے کیونکہ اخلاق وعمل کے لحاظ سے بگڑ چکا ہے، یہ معنی نہیں رکھتا کہ اس کے بیٹا ہونے کی نفی کی جا رہی ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ بگڑا ہوا انسان تمہارے صالح خاندان کا فرد نہیں ہے۔ وہ تمہارے نسبی خاندان کا ایک رکن ہو تو ہوا کرے مگر تمہارے اخلاقی خاندان سے اس کا کوئی رشتہ نہیں۔ اور آج جو فیصلہ کیا جا رہا ہے وہ نسلی یا قومی نزاع کا نہیں ہے کہ ایک نسل والے بچائے جائیں اور دوسری نسل والے غارت کردیے جائیں، بلکہ یہ کفرو ایمان کی نزاع کا فیصلہ ہے جس میں صرف صالح بچائے جائیں گے اور فاسد مٹا دیے جائیں گے۔ بیٹے کو بگڑا ہوا کام کہہ کر ایک اور اہم حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ ظاہر بین آدمی اولاد کو صرف اس لیے پرورش کرتا ہے اور اسے محبوب رکھتا ہے کہ وہ اس کی صلب سے یا اس کے پیٹ سے پیدا ہوئی ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ صالح ہو یا غیر صالح، لیکن مومن کی نگاہ تو حقیقت پر ہونی چاہیے۔ اسے تو اولاد کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ یہ چند انسان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے فطری طریقہ سے میرے سپرد کیا ہے تاکہ ان کو پال پوس کر اور تربیت دے کر اس مقصد کے لیے تیار کروں جس کے لیے اللہ نے دنیا میں انسان کو پیدا کیا ہے۔ اب اگر اس کی تمام کوششوں اور محنتوں کے باوجود کوئی شخص جو اس کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس مقصد کے لیے تیار نہ ہوسکا اور اپنے اس رب ہی کا وفادار خادم نہ بنا جس نے اس کو مومن باپ کے حوالے کیا تھا، تو اس باپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی ساری محنت و کوشش ضائع ہوگئی، پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایسی اولاد کے ساتھ اسے کوئی دل بستگی ہو۔ پھر جب یہ معاملہ اولاد جیسی عزیز ترین چیز کے ساتھ ہے تو دوسرے رشتہ داروں کے متعلق مومن کا نقطہ نظر جو کچھ ہوسکتا ہے ہو ظاہر ہے۔ ایمان ایک فکری و اخلاقی صفت ہے۔ مومن اسی صفت کے لحاظ سے مومن کہلاتا ہے۔ دوسرے انسانوں کے ساتھ مومن ہونے کی حیثیت سے اس کا کوئی رشتہ بجز اخلاقی و ایمانی رشتہ کے نہیں ہے۔ گوشت پوست کے رشتہ دار اگر اس صفت میں اس کے ساتھ شریک ہیں تو یقینا وہ اس کے رشتہ دار ہیں، لیکن اگر وہ اس صفت سے خالی ہیں تو مومن محض گوشت پوست کی حد تک ان سے تعلق رکھے گا، اس کا قلبی و روحی تعلق ان سے نہیں ہوسکتا۔ اور اگر ایمان و کفر کی نزاع میں وہ مومن کے مد مقابل آئیں تو اس کے لیے وہ اور اجنبی کافر یکساں ہوں گے۔
Top