Tafheem-ul-Quran - An-Nahl : 123
ثُمَّ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ؕ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
ثُمَّ : پھر اَوْحَيْنَآ : وحی بھیجی ہم نے اِلَيْكَ : تمہاری طرف اَنِ : کہ اتَّبِعْ : پیروی کرو تم مِلَّةَ : دین اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : یک رخ وَمَا كَانَ : اور نہ تھے وہ مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یکسُو ہو کر ابراہیم ؑ کے طریقے پر چلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔120
سورة النَّحْل 120 یہ معترضین کے پہلے اعتراض کا مکمل جواب ہے۔ اس جواب کے دو اجزا ہیں۔ ایک یہ کہ خدا کی شریعت میں تضاد نہیں ہے، جیسا کہ تم نے یہودیوں کے مذہبی قانون اور شریعت محمدی ﷺ کے ظاہری فرق کو دیکھ کر گمان کیا ہے، بلکہ دراصل یہودیوں کو خاص طور پر ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں چند نعمتوں سے محروم کیا گیا تھا جن سے دوسروں کو محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ دوسرا جزء یہ ہے کہ محمد ﷺ کو جس طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے وہ ابراہیم ؑ کا طریقہ ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ ملت ابراہیمی میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو یہودیوں کے ہاں حرام ہیں۔ مثلا یہودی اونٹ نہیں کھاتے، مگر مِلّتِ ابراہیمی میں وہ حلال تھا۔ یہودیوں کے ہاں شتر مرغ، بطخ، خرگوش وغیرہ حرام ہیں، مگر ملت ابراہیمی میں یہ سب چیزیں حلال تھیں۔ اس جواب کے ساتھ ساتھ کفار مکہ کو اس بات پر بھی متنبہ کردیا گیا کہ نہ تم کو ابراہیم ؑ سے کوئی واسطہ ہے نہ یہودیوں کو، کیونکہ تم دونوں ہی شرک کر رہے ہو۔ ملّتِ ابراہیمی کا اگر کوئی صحیح پیرو ہے تو وہ یہ نبی اور اس کے ساتھی ہیں جن کے عقائد اور اعمال میں شرک کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔
Top