Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 106
اِنَّ فِیْ هٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَؕ
اِنَّ : بیشک فِيْ ھٰذَا : اس میں لَبَلٰغًا : پہنچا دینا لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے عٰبِدِيْنَ : عبادت گزار (جمع)
اِس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کےلیے۔ 99
سورة الْاَنْبِیَآء 99 اس آیت کا مطلب سمجھنے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور اس سے ایک ایسا مطلب نکال لیا ہے جو پورے قرآن کی تردید اور پورے نظام دین کی بیخ کنی کردیتا ہے۔ وہ آیت کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ دنیا کی موجودہ زندگی میں زمین کی وراثت (یعنی حکومت و فرمانروائی اور زمین کے وسائل پر تصرف) صرف صالحین کو ملا کرتی ہے اور ان ہی کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے نوازتا ہے۔ پھر اس قاعدہ کلیہ سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صالح اور غیر صالح کے فرق و امتیاز کا معیار یہی وراثت زمین ہے، جس کو یہ وراثت ملے وہ صالح ہے اور جس کو نہ ملے وہ غیر صالح۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھ کر ان قوموں پر نگاہ ڈالتے ہیں جو دنیا میں پہلے وارث زمین رہی ہیں اور آج اس وراثت کی مالک بنی ہوئی ہیں۔ یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کافر، مشرک، دہریے، فاسق، فاجر، سب یہ وراثت پہلے بھی پاتے رہے ہیں اور آج بھی پا رہے ہیں۔ جن قوموں میں وہ تمام اوصاف پائے گئے ہیں اور آج پائے جاتے ہیں جنہیں قرآن صاف الفاظ میں کفر، فسق، فجور، معصیت اور بدی سے تعبیر کرتا ہے، وہ اس وراثت سے محروم نہیں ہوئیں بلکہ نوازی گئیں اور آج بھی نوازی جا رہی ہیں۔ فرعون و نمرود سے لے کر اس زمانے کے کمیونسٹ فرمانرواؤں تک کتنے ہی ہیں جو کھلم کھلا خدا کے منکر، مخالف، بلکہ مدمقابل بنے ہیں اور پھر بھی وارث زمین ہوئے ہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ قرآن کا بیان کردہ قاعدہ کلیہ تو غلط نہیں ہوسکتا، اب لامحالہ غلطی جو کچھ ہے وہ " صالح " کے اس مفہوم میں ہے جو اب تک مسلمان سمجھتے رہے ہیں۔ چناچہ وہ صلاح کا ایک نیا تصور تلاش کرتے ہیں جس کے مطابق زمین کے وارث ہونے والے سب لوگ یکساں " صالح " قرار پاسکیں، قطع نظر اس سے کہ وہ ابوبکر صدیق اور عمر فاروق ہوں یا چنگیز اور ہلاکو۔ اس نئے تصور کی تلاش میں ڈارون کا نظریہ ارتقاء ان کی رہنمائی کرتا ہے اور وہ قرآن کے تصور " صلاح " کو ڈار دینی تصور " صلاحیت " (Fitness سے لے جا کر ملا دیتے ہیں۔ اس نئی تفسیر کی رو سے آیت زیر بحث کے معنی یہ قرار پاتے ہیں کہ جو شخص اور گروہ بھی ممالک کو فتح کرنے اور ان پر زور و قوت کے ساتھ اپنی حکومت چلانے اور زمین کے وسائل کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کی قابلیت رکھتا ہو وہی " خدا کا صالح بندہ " ہے اور اس کا یہ فعل تمام " عابد " انسانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ " عبادت " اس چیز کا نام ہے جو یہ شخص اور گروہ کر رہا ہے، اگر یہ عبادت تم نہیں کرتے اور نتیجہ میں وراثت زمین سے محروم رہ جاتے ہو تو نہ تمہارا شمار صالحین میں ہوسکتا ہے اور نہ تم کو خدا کا عبادت گزار بندہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ معنی اختیار کرنے کے بعد ان حضرات کے سامنے یہ سوال آیا کہ اگر " صلاح " اور " عبادت " کا تصور یہ ہے تو پھر وہ ایمان (ایمان باللہ، ایمان بالیوم الآخر، ایمان بالرُّسل اور ایمان بالکتُب) کیا ہے جس کے بغیر، خود اسی قرآن کی رو سے۔ خدا کے ہاں کوئی عمل صالح مقبول نہیں ؟ اور پھر قرآن کی اس دعوت کے کیا معنی ہیں کہ اس نظام اخلاق اور قانون زندگی کی پیروی کرو جو خدا نے اپنے رسول کے ذریعہ بھیجا ہے ؟ اور پھر قرآن کا بار بار یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ جو رسول کو نہ مانے اور خدا کے نازل کردہ احکام کا اتباع نہ کرے وہ کافر، فاسق، عذاب کا مستحق اور مغضوب بار گاہ خداوندی ہے ؟ یہ سوالات ایسے تھے کہ اگر یہ لوگ ان پر ایمانداری کے ساتھ غور کرتے تو محسوس کرلیتے کہ ان سے اس آیت کا مطلب سمجھنے اور صلاح کا ایک نیا تصور قائم کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ لیکن انہوں نے اپنی غلطی محسوس کرنے کے بجائے پوری جسارت کے ساتھ ایمان، اسلام، توحید، آخرت، رسالت، ہر چیز کے معنی بدل ڈالے تاکہ وہ سب ان کی اس ایک آیت کی تفسیر کے مطابق ہوجائیں، اور اس ایک چیز کو ٹھیک بٹھانے کی خاطر انہوں نے قرآن کی ساری تعلیمات کو الٹ پلٹ کر ڈالا۔ اس پر لطیفہ یہ ہے کہ جو لوگ ان کی اس مرمت دین سے اختلاف کرتے ہیں ان کو یہ الٹا الزام دیتے ہیں کہ " خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں "۔ یہ دراصل مادی ترقی کی خواہش کا ہیضہ ہے جو بعض لوگوں کو اس بری طرح لاحق ہوگیا ہے کہ وہ قرآن کی معنوی تحریف کرنے میں بھی تامل نہیں کرتے۔ ان کی اس تفسیر میں پہلی بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کی ایسی تفسیر کرتے ہیں جو قرآن کی مجموعی تعلیمات کے خلاف پڑتی ہے، حالانکہ اصولاً قرآن کی ہر آیت کی وہی تفسیر صحیح ہو سکتی ہے جو اس کے دوسرے بیانات اور اس کے مجموعی نظام فکر سے مطابقت رکھتی ہو۔ کوئی شخص جس نے کبھی قرآن کو ایک دفعہ بھی سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کی ہے، اس بات سے ناواقف نہیں رہ سکتا کہ قرآن جس چیز کو نیکی اور تقویٰ اور بھلائی کہتا ہے وہ " مادی ترقی اور حکمرانی کی صلاحیت " کی ہم معنی نہیں ہے، اور " صالح " کو اگر " صاحب صلاحیت " کے معنی میں لے لیا جائے تو یہ ایک آیت پورے قرآن سے ٹکرا جاتی ہے۔ دوسرا سبب، جو اس غلطی کا موجب ہوا ہے، یہ ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کو اس کے سیاق وسباق سے الگ کر کے بےتکلف جو معنی چاہتے ہیں اس کے الفاظ سے نکال لیتے ہیں، حالانکہ ہر آیت کے صحیح معنی صرف وہی ہو سکتے ہیں جو سیاق وسباق سے مناسبت رکھتے ہوں۔ اگر یہ غلطی نہ کی جاتی تو آسانی کے ساتھ دیکھا جاسکتا تھا کہ اوپر سے جو مضمون مسلسل چلا آ رہا ہے وہ عالم آخرت میں مومنین صالحین اور کفار و مشرکین کے انجام سے بحث کرتا ہے۔ اس مضمون میں یکایک اس مضمون کے بیان کرنے کا آخر کونسا موقع تھا کہ دنیا میں وراثت زمین کا انتظام کس قاعدے پر ہو رہا ہے۔ تفسیر کے صحیح اصولوں کو ملحوظ رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب صاف ہے کہ دوسری تخلیق میں، جس کا ذکر اس سے پہلے کی آیت میں ہوا ہے، زمین کے وارث صرف صالح لوگ ہوں گے اور اس ابدی زندگی کے نظام میں موجودہ عارضی نظام زندگی کی سی کیفیت برقرار نہ رہے گی کہ زمین پر فاسقوں اور ظالموں کو بھی تسلط حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ مضمون سورة مومنون آیات 10۔ 11 میں ارشاد ہوا ہے اور اس سے زیادہ صریح الفاظ میں سورة زُمَر کے خاتمہ پر بیان کیا گیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ قیامت اور نفخ صور اول و ثانی کا ذکر کرنے کے بعد اپنی عدالت کا ذکر فرماتا ہے، پھر کفر کا انجام بیان کر کے نیک لوگوں کا انجام یہ بتاتا ہے کہ وَسِیقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَراً ؕ حَتّٰی اِذَا جَآءُوْھَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُھَا وَقَالَ لَھُمْ خَذَنَتُھَا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا خٰلِدِیْنَ۔ وَقَالُوا الْحَمْدُ للہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہ وَاَوْرَثْنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآءُ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ " اور جن لوگوں نے اپنے رب کے خوف سے تقویٰ اختیار کیا تھا وہ جنت کی طرف گروہ در گروہ لے جائے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اس کے منتظم ان سے کہیں گے کہ سلام ہو تم کو، تم بہت اچھے رہے، آؤ اب اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہوجاؤ۔ اور وہ کہیں گے کہ حمد ہے اس خدا کی جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہم کو زمین کا وارث کردیا، اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے "۔ دیکھیے، یہ دونوں آیتیں ایک ہی مضمون بیان کر رہی ہیں، اور دونوں جگہ وراثت زمین کا تعلق عالم آخرت سے ہے نہ کہ اس دنیا سے۔ اب زبور کو لیجیے جس کا حوالہ آیت زیر بحث میں دیا گیا ہے۔ اگرچہ ہمارے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ بائیبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں زبور کے نام سے جو کتاب اس وقت پائی جاتی ہے یہ اپنی اصلی غیر محرف صورت میں ہے کہ نہیں۔ کیونکہ اس میں مزامیر داؤد کے علاوہ دوسرے لوگوں کے مزامیر بھی خلط ملط ہوگئے ہیں اور اصلی زبور کا نسخہ کہیں موجود نہیں ہے۔ تاہم جو زبور اس وقت موجود ہے اس میں بھی نیکی اور راستبازی اور توکل کی نصیحت کے بعد ارشاد ہوتا ہے " کیونکہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہوجائے گا، تو اس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا تا پر وہ نہ ہوگا، لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے اور سلامتی کی فراوانی سے شادماں رہیں گے ............ ان کی میراث ہمیشہ کے لیے ہوگی ......... صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے " (37 داؤد کا مزمور۔ آیات 9۔ 10۔ 11۔ 18۔ 29)۔ دیکھیے، یہاں راستباز لوگوں کے لیے زمین کی دائمی وراثت کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں کی رو سے خلود اور ابدی زندگی کا تعلق آخرت سے ہے نہ کہ اس دنیا کی زندگی سے۔ دنیا میں زمین کی عارضی وراثت جس قاعدے پر تقسیم ہوتی ہے اسے سورة اعراف میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اِنَّ الْاَرْضَ للہِ یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ۔ (آیت 128) " زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے "۔ مشیت الہٰی کے تحت یہ وراثت مومن اور کافر، صالح اور فاسق، فرماں بردار اور نافرمان، سب کو ملتی ہے، مگر جزائے اعمال کے طور پر نہیں بلکہ امتحان کے طور پر، جیسا کہ اسی آیت میں فرمایا وَیَسْتَخْلِفَنَّکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۔ (آیت 129)۔ " اور وہ تم کو زمین میں خلیفہ بنائے گا پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو "۔ اس وراثت میں دوام اور ہمیشگی نہیں ہے۔ یہ مستقل اور دائمی بندوبست نہیں ہے۔ یہ محض ایک امتحان کا موقع ہے جو خدا کے ایک ضابطے کے مطابق دنیا میں مختلف قوموں کو باری باری دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس آخرت میں اسی زمین کا دوامی بندوبست ہوگا، اور قرآن کے متعدد واضح ارشادات کی روشنی میں وہ اس قاعدے پر ہوگا کہ " زمین اللہ کی ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے صرف مومنین صالحین کو اس کا وارث بنائے گا، امتحان کے طور پر نہیں، بلکہ اس نیک رویے کی ابدی جزاء کے طور پر جو انہوں نے دنیا میں اختیار کیا "۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، النور، حاشیہ 83
Top