Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 107
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ : اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
اے محمدؐ ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔ 100
سورة الْاَنْبِیَآء 100 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ " ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے " دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ کی بعثت دراصل نوع انسانی کے لیے خدا کی رحمت اور مہربانی ہے، کیونکہ آپ نے آ کر غفلت میں پڑی ہوئی دنیا کو چونکایا ہے، اور اسے وہ علم دیا ہے جو حق اور باطل کا فرق واضح کرتا ہے، اور اس کو بالکل غیر مشتبہ طریقہ سے بتادیا ہے کہ اس کے لیے تباہی کی راہ کونسی ہے اور سلامتی کی راہ کونسی۔ کفار مکہ حضور ﷺ کی بعثت کو اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے، ناخن سے گوشت جدا کر کے رکھ دیا ہے۔ اس پر فرمایا گیا کہ نادانو، تم جسے زحمت سمجھ رہے ہو یہ درحقیقت تمہارے لیے خدا کی رحمت ہے۔
Top