Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 44
وَّ اَصْحٰبُ مَدْیَنَ١ۚ وَ كُذِّبَ مُوْسٰى فَاَمْلَیْتُ لِلْكٰفِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ١ۚ فَكَیْفَ كَانَ نَكِیْرِ
وَّ : اور اَصْحٰبُ مَدْيَنَ : مدین والے وَكُذِّبَ : اور جھٹلایا گیا مُوْسٰى : موسیٰ فَاَمْلَيْتُ : پس میں نے ڈھیل دی لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو ثُمَّ : پھر اَخَذْتُهُمْ : میں نے انہیں پکڑ لیا فَكَيْفَ : تو کیسا كَانَ : ہوا نَكِيْرِ : میرا انکار
اور اہلِ مَدیَن بھی جھُٹلا چکے ہیں اور موسیٰؑ بھی جھٹلائے جا چکے ہیں۔ ان سب منکرینِ حق کو میں نے پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا۔ 88 اب دیکھ لو کہ میری عقوبت کیسی تھی۔ 89
سورة الْحَجّ 88 یعنی ان میں سے کسی قوم کو بھی نبی کی تکذیب کرتے ہی فوراً نہیں پکڑ لیا گیا تھا، بلکہ ہر ایک کو سوچنے سمجھنے کے لیے کافی وقت دیا گیا اور گرفت اس وقت کی گئی جبکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوچکے تھے۔ اسی طرح کفار مکہ بھی یہ نہ سمجھیں کہ ان کی شامت آنے میں جو دیر لگ رہی ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ نبی کی تنبیہات محض خالی خولی دھمکیاں ہیں۔ درحقیقت یہ مہلت غور و فکر ہے جو اللہ اپنے قاعدے کے مطابق ان کو دے رہا ہے اور اس مہلت سے اگر انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا تو ان کا انجام بھی وہی ہو کر رہنا ہے جو ان کے پیش روؤں کا ہوچکا ہے۔ سورة الْحَجّ 89 اصل میں لفظ نکیر استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم عقوبت یا کسی دوسرے لفظ سے ادا نہیں ہوتا۔ یہ لفظ دو معنی دیتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی شخص کی بری روش پر ناخوشی کا اظہار کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس کو ایسی سزا دی جائے جو اس کی حالت دگرگوں کر دے۔ اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جائے۔ کوئی دیکھے تو پہچان نہ سکے کہ یہ وہی شخص ہے۔ ان دونوں مفہومات کے لحاظ سے اس فقرے کا پورا مطلب یہ ہے کہ " اب دیکھ لو کہ ان کی اس روش پر جب میرا غضب بھڑکا تو پھر میں نے ان کی حالت کیسی دگرگوں کردی۔ "
Top