Tafheem-ul-Quran - An-Noor : 6
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں اَزْوَاجَهُمْ : اپنی بیویاں وَلَمْ يَكُنْ : اور نہ ہوں لَّهُمْ : ان کے شُهَدَآءُ : گواہ اِلَّآ : سوا اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں (خود) فَشَهَادَةُ : پس گواہی اَحَدِهِمْ : ان میں سے ایک اَرْبَعُ : چار شَهٰدٰتٍ : گواہیاں بِاللّٰهِ : اللہ کی قسم اِنَّهٗ لَمِنَ : کہ وہ بیشک سے الصّٰدِقِيْنَ : سچ بولنے والے
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام میں) سچا ہے
بقیہ حصہ ریکارڈنمبر 2815 آیت نمبر 2 (5) زنا کو قابل سزا فعل تو 3 ھ میں ہی قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اس وقت یہ ایک " قانونی " جرم نہ تھا جس پر ریاست کی پولیس اور عدالت کوئی کارروائی کرے، بلکہ اس کی حیثیت ایک " معاشرتی " یا " خاندانی " جرم کی سی تھی جس پر اہل خاندان ہی کی بطور خود سزا سے لینے کا اختیار تھا۔ حکم یہ تھا کہ اگر چار گواہ اس امر کی شہاست دے دیں کہ انہوں نے ایک مرد اور ایک عورت کو زنا کرتے دیکھا ہے تو دونوں کو مارا پیٹا جائے، اور عورت کو گھر میں قید کردیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ اشارہ بھی کردیا گیا تھا کہ یہ قاعدہ " تا حکم ثانی " ہے، اصل قانون بعد میں آنے والا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، صفحہ 331) اس کے ڈھائی تین سال بعد یہ حکم نازل ہوا جو آپ اس آیت میں پا رہے ہیں، اور اس نے حکم سابق کو منسوخ کر کے زنا کو ایک قانونی جرم قابل دست اندازی سرکار (Cognizableoffene) قرار دے دیا۔ (6) اس آیت میں زنا کی جو سزا مقرر کی گئی ہے وہ دراصل " محض زنا " کی سزا ہے، زنا بعد احصان (یعنی شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کے ارتکاب) کی سزا نہیں ہے جو اسلامی قانون کی نگاہ میں سخت تر جرم ہے، یہ بات خود قرآن ہی کے ایک اشارے سے معلوم ہوتی ہے کہ وہ یہاں اس زنا کی سزا بیان کر رہا ہے جس کے فریقین غیر شادی شدہ ہوں۔ سورة نساء میں پہلے ارشاد ہوا کہ وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا (آیت 15) " تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے "۔ اس کے بعد تھوڑی دور آگے چل کر پھر فرمایا وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَيٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ۔۔۔۔ فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ (آیت 25) " اور تم میں سے جو لوگ اتنی مقدرت نہ رکھتے ہوں کہ مومنوں میں سے محصنت کے ساتھ نکاح کریں تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں سے نکاح کرلیں۔۔۔ پھر اگر وہ (لونڈیاں) محصنہ ہوجانے کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو محصنت کو (ایسے جرم پر) دی جائے۔ ان میں سے پہلی آیت میں توقع دلائی گئی ہے کہ زانیہ عورتیں جن کو سردست قید کرنے کا حکم دیا جارہا ہے ان کے لیے اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی سبیل پیدا کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سورة نور کا یہ دوسرا حکم وہی چیز ہے جس کا وعدہ سورة نساء کی مذکورہ بالا آیت میں کیا گیا تھا۔ دوسری آیت میں شادی شدہ لونڈی کے ارتکاب زنا کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہاں ایک ہی آیت اور ایک ہی سلسلہ بیان میں دو جگہ محصنات کا لفظ استعمال ہوا ہے اور لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ دونوں جگہ اس کے ایک ہی معنی ہیں۔ اب آغاز کے فقرے کو دیکھیے تو وہاں کہا جارہا ہے کہ جو لوگ " محصنات سے نکاح کرنے کی مقدرت نہ رکھتے ہوں "۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد شادی شدہ عورت نہیں ہوسکتی بلکہ ایک آزاد خاندان کی بن بیاہی عورت ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد اختتام کے فقرے میں فرمایا جاتا ہے کہ لونڈی منکوحہ ہونے کے بعد اگر زنا کرے تو اس کو اس سزا سے آدھی سزا دی جائے جو محصنات کو اس جرم پر ملنی چاہیے۔ سیاق عبارت صاف بتاتا ہے کہ اس فقرے میں بھی محصنات کے معنی وہی ہیں جو پہلے فقرے میں تھے، یعنی شادی شدہ عورت نہیں بلکہ آزاد خاندان کی حفاظت میں رہنے والی بن بیاہی عورت۔ اس طرح سورة نساء کی یہ دونوں آیتیں مل کر اس امر کی طرف اشارہ کردیتی ہیں کہ سورة نور کا یہ حکم، جس کا وہاں وعدہ کیا گیا تھا، غیر شادی شدہ لوگوں کے ارتکاب زنا کی سزا بیان کرتا ہے۔ (مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، النساء حاشیہ 46) (7) یہ امر کہ زنا بعد احصان کی سزا کیا ہے، قرآن مجید نہیں بتاتا بلکہ اس کا علم ہمیں حدیث سے حاصل ہوتا ہے بکثرت معتبر روایات سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے نہ صرف قولاً اس کی سزا رجم (سنگساری) بیان فرمائی ہے، بلکہ عملاً آپ نے متعدد مقدمات میں یہی سزا نافذ بھی کی ہے۔ پھر آپ کے بعد چاروں خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دور میں یہی سزا نافذ کی اور اسی کے قانونی سزا ہونے کا بار بار اعلان کیا۔ صحابہ کرام اور تابعین میں یہ مسئلہ بالکل متفق علیہ تھا۔ کسی ایک شخص کا بھی کوئی قول ایسا موجود نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے کہ قرن اول میں کسی کو اس کے ایک ثابت شدہ حکم شرعی ہونے میں کوئی شک تھا۔ ان کے بعد تمام زمانوں اور ملکوں کے فقہائے اسلام اس بات پر متفق رہے ہیں کہ یہ ایک سنت ثابتہ ہے، کیونکہ اس کی صحت کے اتنے متواتر اور قوی ثبوت موجود ہیں جن کے ہوتے کوئی صاحب علم اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ امت کی پوری تاریخ میں بجز خوارج اور بعض معتزلہ کے کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا ہے، اور ان کے انکار کی بنیاد بھی یہ نہیں تھی کہ نبی ﷺ سے اس حکم کے ثبوت میں وہ کسی کمزوری کی نشان دہی کرسکے ہوں، بلکہ وہ اسے " قرآن کے خلاف " قرار دیتے تھے۔ حالانکہ یہ ان کے اپنے فہم قرآن کو قصور تھا۔ وہ کہتے تھے کہ قرآن الزّانی و الذّانیۃ کے مطلق الفاظ استعمال کر کے اس کی سزا سو کوڑے بیان کرتا ہے، لہٰذا قرآن کی رو سے ہر قسم کے زانی اور زانیہ کی سزا یہی ہے اور اس سے زانی محصن کو الگ کر کے اس کی کوئی سزا تجویز کرنا قانون خداوند کی خلاف ورزی ہے، مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن کے الفاظ جو قانونی وزن رکھتے ہیں وہی قانونی وزن ان کی اس تشریح کا بھی ہے جو نبی ﷺ نے کی ہو، بشرطیکہ وہ آپ سے ثابت ہو۔ قرآن نے ایسے ہی مطلق الفاظ میں السّارق و السّارقۃ کا حکم بھی قطع ید بیان کیا ہے۔ اس حکم کو اگر ان تشریحات سے مقید نہ کیا جائے جو نبی ﷺ سے ثابت ہیں تو اس کے الفاظ کی عمومیت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ایک بیر کی چوری پر بھی آدمی کو سارق قرار دیں اور پھر پکڑ کر اس کا ہاتھ شانے کے پاس سے کاٹ دیں۔ دوسری طرف لاکھوں روپے کی چوری کرنے والا بھی اگر گرفتار ہوتے ہی کہہ دے کہ میں نے اپنے نفس کی اصلاح کرلی ہے اور اب میں چوری سے توبہ کرتا ہوں تو آپ کو اسے چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ قرآن کہتا ہے فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ یَتُوْ بُ عَلَیْہِ (المائدہ۔ آیت 39)۔ اسی طرح قرآن صرف رضاعی ماں اور رضاعی بہن کی حرمت بیان کرتا ہے، رضاعی بیٹی کی حرمت اس استدلال کی رو سے قرآن کے خلاف ہونی چاہیے۔ قرآن صرف دو بہنوں کے جمع کرنے سے منع کرتا ہے۔ خالہ اور بھانجی، اور پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے کو شخص حرام کہے اس پر قرآن کے خلاف حکم لگانے کا الزام عائد ہونا چاہیے۔ قرآن صرف اس حالت میں سوتیلی بیٹی کو حرام کرتا ہے جب کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو۔ مطلقاً اس کی حرمت خلاف قرآن قرار پانی چاہیے۔ قرآن صرف اس وقت رہن کی اجازت دیتا ہے جب کہ آدمی سفر میں ہو اور قرض کی دستاویز لکھنے والا کاتب میسر نہ آئے۔ حضر میں، اور کاتب کے قابل حصول ہونے کی صورت میں رہن کا جواز قرآن کے خلاف ہونا چاہیے۔ قرآن عام لفظوں میں حکم دیتا ہے وَاَشْھِدُوْآ اِذَا تَبَایَعْتُمْ (گواہ بناؤ جب کہ آپس میں خریدو فروخت کرو)۔ اب وہ تمام خریدو فروخت ناجائز ہونی چاہیے جو رات دن ہماری دکانوں پر گواہی کے بغیر ہو رہی ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینے سے ہی ان لوگوں کے استدلال کی غلطی معلوم ہوجاتی ہے جو رجم کے حکم کو خلاف قرآن کہتے ہیں۔ نظام شریعت میں نبی کا یہ منصب ناقابل انکار ہے کہ وہ خدا کا حکم پہنچانے کے بعد ہمیں بتائے کہ اس حکم کا منشا کیا ہے، اس پر عمل کرنے کا طریقہ کیا ہے، کن معاملات پر اس کا اطلاق ہوگا، اور کن معاملات کے لیے دوسرا حکم ہے۔ اس منصب کا انکار صرف اصول دین ہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس سے اتنی عملی قباحتیں لازم آتی ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔ (8) زنا کی قانونی تعریف میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ اس کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ " ایک مرد کا کسی ایسی عورت سے قُبُل میں مباشرت کرنا جو نہ تو اس کے نکاح یا ملک یمین میں ہو اور نہ اس امر کا شبہ کی کوئی معقول وجہ ہو کہ اس نے منکوحہ یا مملوکہ سمجھتے ہوئے اس سے مباشرت کی ہے "۔ اس تعریف کی رو سے وطی فی الدُبُر، عمل قوم لوط، بہائم سے مجامعت وغیرہ، ماہیت زنا سے خارج ہوجاتے ہیں اور صرف عورت سے قُبُل میں مباشرت ہی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جب کہ شرعی حق یا اس کے شبہ کے بغیر یہ فعل کیا گیا ہو۔ بخلاف اس کے شافعیہ اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں " شرمگاہ کو ایسی شرمگاہ میں داخل کرنا جو شرعاً حرام ہو مگر طبعاً جس کی طرف رغبت کی جاسکتی ہو "۔ اور مالکیہ کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے " شرعی حق یا اس کے شبہ کے بغیر قُبُل یا دُبُر میں مرد یا عورت سے وطی کرنا "۔ ان دونوں تعریفوں کی رو سے عمل قوم لوط بھی زنا میں شمار ہوجاتا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ دونوں تعریفیں لفظ زنا کے معروف معنوں سے ہٹی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید ہمیشہ الفاظ کو ان کے معروف اور عام فہم معنی میں استعمال کرتا ہے۔ الا یہ کہ وہ کسی لفظ کو اپنی اصطلاح خاص بنا رہا ہو، اور اصطلاح خاص بنانے کی صورت میں وہ خود اپنے مفہوم خاص کو ظاہر کردیتا ہے۔ یہاں ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے کہ لفظ زنا کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کیا گیا ہو، لہٰذا اسے معروف معنی ہی میں لیا جائے گا، اور وہ عورت سے فطری مگر ناجائز تعلق تک ہی محدود ہے، شہوت رانی کی دوسری صورتوں تک وسیع نہیں ہوتا۔ علاوہ بریں یہ بات معلوم ہے کہ عمل قوم لوط کی سزا کے بارے میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ اگر اس فعل کا شمار بھی اسلامی اصطلاح کی رو سے زنا میں ہوتا تو ظاہر ہے کہ اختلاف رائے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ (9) قانوناً ایک فعل زنا کو مستلزم سزا قرار دینے کے لیے صرف ادخال حشفہ کافی ہے۔ پورا ادخال یا تکمیل فعل اس کے لیے ضروری نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر ادخال حشفہ نہ ہو تو محض ایک بستر پر یکجا پایا جانا، یا ملاعبت کرتے ہوئے دیکھا جانا، یا برہنہ پایا جانا کسی کو زانی قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اور اسلامی شریعت اس حد تک بھی نہیں جاتی کہ کوئی جوڑا ایسی حالت میں پایا جائے تو اس کا ڈاکٹری معائنہ کرا کے زنا کا ثبوت بہم پہنچایا جائے اور پھر اس پر حد زنا جاری کی جائے۔ جو لوگ اس طرح کی بےحیائی میں مبتلا پائے جائیں ان پر صرف تعزیر ہے۔ جس کا فیصلہ حالات کے لحاظ سے حاکم عدالت خود کرے گا، یا جس کے لیے اسلامی حکومت کی مجلس شوریٰ کوئی سزا تجویز کرنے کی مجاز ہوگی۔ یہ تعزیر اگر کوڑوں کی شکل میں ہو تو دس کوڑوں سے زیادہ نہیں لگائے جاسکتے، کیونکہ حدیث میں تصریح ہے کہ لا یجلد فوق عشر جلداتٍ اِلَّا فی حدٍّ من حدود اللہ۔ " اللہ کی مقرر کردہ حدود کے سوا کسی اور جرم میں دس کوڑوں سے زیادہ نہ مارے جائیں " (بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔ اور اگر کوئی شخص پکڑا نہ گیا ہو بلکہ خود نادم ہو کر ایسے کسی قصور کا اعتراف کرے تو اس کے لیے صرف توبہ کی تلقین کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ " شہر کے باہر میں ایک عورت سے سب کچھ کر گزرا بجز جماع کے۔ اب حضور جو چاہیں مجھے سزا دیں "۔ حضرت عمر نے کہا " جب خدا نے پردہ ڈال دیا تھا تو تو بھی پردہ پڑا رہنے دیتا "۔ نبی ﷺ خاموش رہے اور وہ شخص چلا گیا۔ پھر آپ نے اسے واپس بلایا اور یہ آیت پڑھی اَقِمِ الصَّلوٰۃ طَرَفَی النَّھَارِ وَ زُلَفاً مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبُنَ السَّیِّاٰتِ۔ " نماز قائم کر دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر، نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں " (ہود، آیت 114)۔ ایک شخص نے پوچھا " کیا یہ اسی کے لیے خاص ہے "؟ حضور نے فرمایا " نہیں، سب کے لیے ہے " (مسلم، ترمذی، ابو داؤد، نسائی)۔ یہی نہیں بلکہ شریعت اس کو بھی جائز نہیں رکھتی کہ کوئی شخص اگر جرم کی تصریح کے بغیر اپنے مجرم ہونے کا اعتراف کرے تو کھوج لگا کر اس سے پوچھا جائے کہ تو نے کون سا جرم کیا ہے۔ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا " یا رسول اللہ میں حد کا مستحق ہوگیا ہوں، مجھ پر حد جاری فرمائیے " مگر آپ نے اس سے نہیں پوچھا کہ تو کس حد کا مستحق ہوا ہے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر وہ شخص پھر اٹھا اور کہنے لگا کہ میں مجرم ہوں مجھے سزا دیجیے۔ آپ نے فرمایا " کیا تو نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے "؟ اس نے عرض کیا ،" جی ہاں "۔ فرمایا " بس تو اللہ نے تیرا قصور معاف کردیا "۔ (بخاری، مسلم، احمد)۔ (10) کسی شخص (مرد یا عورت) کو مجرم قرار دینے لیے صرف یہ امر کافی نہیں ہے کہ اس سے فعل زنا صادر ہوا ہے، بلکہ اس کے لیے مجرم میں کچھ شرطیں پائی جانی چاہییں۔ یہ شرطیں زنائے محض کے معاملے میں اور ہیں، اور زنا بعد احصان کے معاملہ میں اور۔ زنائے محض کے معاملے میں شرط یہ ہے کہ مجرم عاقل ہو اور بالغ ہو۔ اگر کسی مجنون یا کسی بچے سے یہ فعل سرزد ہو تو وہ حد زنا کا مستحق نہیں ہے۔ اور زنا بعد احصان کے لیے عقل اور بلوغ کے علاوہ چند مزید شرطیں بھی ہیں جن کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں پہلی شرط یہ ہے کہ مجرم آزاد ہو۔ اس شرط پر سب کا اتفاق ہے، کیونکہ قرآن خود اشارہ کرتا ہے کہ غلام کو رجم کی سزا نہیں دی جائے گی۔ ابھی یہ بات گزر چکی ہے کہ لونڈی اگر نکاح کے بعد زنا کی مرتکب ہو تو اسے غیر شادی شدہ آزاد عورت کی بہ نسبت آدھی سزا دینی چاہیے۔ فقہاء نے تسلیم کیا ہے کہ قرآن کا یہی قانون غلام پر بھی نافذ ہوگا۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مجرم باقاعدہ شادی شدہ ہو۔ یہ شرط بھی متفق علیہ ہے، اور اس شرط کی رو سے کوئی ایسا شخص جو ملک یمین کی بنا پر تمتع کرچکا ہو، یا جس کا نکاح کسی فاسد طریقے سے ہوا ہو، شادی شدہ قرار نہیں دیا جائے گا، یعنی اس سے اگر زنا کا صدور ہو تو اس کو رجم کی نہیں بلکہ کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اس کا محض نکاح ہی نہ ہوا ہو بلکہ نکاح کے بعد خلوت صحیحہ بھی ہوچکی ہو۔ صرف عقد نکاح کسی مرد کو محصِن، یا عورت کو محصنہ نہیں بنا دیتا کہ زنا کے ارتکاب کی صورت میں اس کو رجم کردیا جائے۔ اس شرط پر بھی اکثر فقہا متفق ہیں۔ مگر امام ابوحنیفہ اور امام محمد اس میں اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ ایک مرد یا ایک عورت کو محصن صرف اسی صورت میں قرار دیا جائے گا جب کہ نکاح اور خلوت صحیحہ کے وقت زوجین آزاد، بالغ اور عاقل ہوں۔ اس مزید شرط سے جو فرق واقع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مرد کا نکاح ایسی عورت سے ہوا ہو جو لونڈی ہو، یا نابالغ ہو، یا مجنون ہو، تو خواہ وہ اس حالت میں اپنی بیوی سے لذت اندوز ہو بھی چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کا مستحق نہ ہوگا۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے اگر اس کو اپنے نابالغ یا مجنون یا غلام شوہر سے لذت اندوز ہونے کا موقع مل چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کی مستحق نہ ہوگی۔ غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی معقول اضافہ ہے جو ان دونوں بالغ النظر بزرگوں نے کیا ہے۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ مجرم مسلمان ہو۔ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی، امام ابو یوسف اور امام احمد (رحمہم اللہ) اس کو نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک ذِمّی بھی اگر زنا بعد احصان کا مرتکب ہوگا تو رجم کیا جائے گا۔ لیکن امام ابوحنیفہ اور امام مالک اس امر پر متفق ہیں کہ زنا بعد احصان کی سزا رجم صرف مسلمان کے لیے ہے۔ اس کے دلائل میں سے سب سے زیادہ معقول اور وزنی دلیل یہ ہے کہ ایک آدمی کو سنگساری جیسی خوفناک سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل " احصان " کی حالت میں ہو اور پھر بھی زنا کے ارتکاب سے باز نہ آئے۔ احصان کا مطلب ہے " اخلاقی قلعہ بندی "، اور اس کی تکمیل تین حصاروں سے ہوتی ہے۔ اولین حصار یہ ہے کہ آدمی خدا پر ایمان رکھتا ہو، آخرت کی جواب دہی کا قائل ہو اور شریعت خداوندی کو تسلیم کرتا ہو۔ دوسرا حصار یہ ہے کہ وہ معاشرے کا آزاد فرد ہو، کسی دوسرے کی غلامی میں نہ ہو جس کی پابندیاں اسے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے جائز تدابیر اختیار کرنے میں مانع ہوتی ہیں، اور لا چاری و مجبوری اس سے گناہ کرا سکتی ہے، اور کوئی خاندان اسے اپنے اخلاق اور اپنی عزت کی حفاظت میں مدد دینے والا نہیں ہوتا۔ تیسرا حصار یہ ہے کہ اس کا نکاح ہوچکا ہو اور اسے تسکین نفس کا جائز ذریعہ حاصل ہو۔ یہ تینوں حصار جب پائے جاتے ہوں تب " قلع بندی " مکمل ہوتی ہے اور تب ہی وہ شخص بجا طور پر سنگساری کا مستحق قرار پاسکتا ہے جس نے ناجائز شہوت رانی کی خاطر تین تین حصار توڑ ڈالے۔ لیکن جہاں پہلا اور سب سے بڑا حصار، یعنی خدا اور آخرت اور قانون خداوندی پر ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں یقیناً قلعہ بندی مکمل نہیں ہے اور اس بنا پر فجور کا جرم بھی اس شدت کو پہنچا ہوا نہیں ہے جو اسے انتہائی سزا کا مستحق بنا دے۔ اس دلیل کی تائید ابن عمر کی وہ روایت کرتی ہے جسے اسحاق بن راہویہ نے اپنی مسند میں اور دار قطنی نے اپنی سُنَن میں نقل کیا ہے کہ من اشرک باللہ فلیس بمحصن " جس نے خدا کے ساتھ شرک کیا وہ محصن نہیں ہے "۔ اگرچہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا ابن عمر نے اس روایت میں نبی ﷺ کا قول نقل کیا ہے، یا یہ ان کا اپنا فتویٰ ہے۔ لیکن اس کمزوری کے باوجود اس کا مضمون اپنے معنی کے لحاظ سے نہایت قوی ہے۔ اس کے جواب میں اگر یہودیوں کے اس مقدمے سے استدلال کیا جائے جس میں نبی ﷺ نے رجم کا حکم نافذ فرمایا تھا، تو ہم کہیں گے کہ یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس مقدمے کے متعلق تمام معتبر روایات کو جمع کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نبی ﷺ نے ان پر اسلام کا ملکی قانون (Law of theland) نہیں بلکہ ان کا اپنا مذہبی قانون (Personal law) نافذ فرمایا تھا۔ بخاری و مسلم کی متفقہ روایت ہے کہ جب یہ مقدمہ آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے یہودیوں سے پوچھا کہ ما تجدون فی التوراۃ فی شان الرجم یا ما تجدون فی کتابکم، یعنی " تمہاری کتاب توراۃ میں اس کا کیا حکم ہے "؟ پھر جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان کے ہاں رجم کا حکم ہے تو حضور نے فرمایا فانی احکم بما فی التوراۃ " میں وہی فیصلہ کرتا ہوں جو توراۃ میں ہے "۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا اللھم انی اول من احیا امرک اذا ماتوہ، " خداوندا، میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جب کہ انہوں نے اسے مردہ کردیا تھا "۔ (مسلم، ابو داؤد، احمد)۔ (11) فعل زنا کے مرتکب کو مجرم قرار دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنی آزاد مرضی سے یہ فعل کیا ہو۔ جبر واکراہ سے اگر کسی شخص کو اس فعل کے ارتکاب پر مجبور کیا گیا ہو تو وہ نہ مجرم ہے نہ سزا کا مستحق۔ اس معاملے پر شریعت کا صرف یہ عام قاعدہ ہی منطبق نہیں ہوتا کہ " آدمی جبراً کرائے ہوئے کاموں کی ذمہ داری سے بری ہے "۔ بلکہ آگے چل کر اسی سورے میں خود قرآن ان عورتوں کی معافی کا اعلان کرتا ہے جن کو زنا پر مجبور کیا گیا ہو۔ نیز متعدد احادیث میں تصریح ہے کہ زنا بالجبر کی صورت میں صرف زانی جابر کو سزا دی گئی اور جس پر جبر کیا گیا تھا اسے چھوڑ دیا گیا۔ ترمذی و ابو داؤد کی روایت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کے لیے نکلی۔ راستے میں ایک شخص نے اس کو گرا لیا اور زبردستی اس کی عصمت دری کردی۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آگئے اور زانی پکڑا گیا۔ نبی ﷺ نے اس کو رجم کرا دیا اور عورت کو چھوڑ دیا۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں ایک شخص نے ایک لڑکی سے زنا بالجبر کا ارتکاب کیا۔ آپ نے اسے کوڑے لگوائے اور لڑکی کو چھوڑ دیا۔ ان دلائل کی بنا پر عورت کے معاملہ میں تو قانون متفق علیہ ہے۔ لیکن اختلاف اس امر میں ہوا ہے کہ آیا مرد کے معاملے میں بھی جبر واکراہ معتبر ہے یا نہیں۔ امام ابو یوسف، امام محمد، امام شافعی اور امام حسن بن صالح (رحمہم اللہ) کہتے ہیں کہ مرد بھی اگر زنا کرنے پر مجبور کیا گیا ہو تو معاف کیا جائے گا۔ امام زُفَر کہتے ہیں کہ اسے معاف نہیں کیا جائے گا، کیونکہ وہ انتشار عضو کے بغیر اس فعل کا ارتکاب نہیں کرسکتا، اور انتشار عضو اس امر کی دلیل ہے کہ اس کی اپنی شہوت اس کی محرک ہوئی تھی۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت یا اس کے کسی حاکم نے آدمی کو زنا پر مجبور کیا ہو تو سزا نہیں دی جائے گی، کیونکہ جب خود حکومت ہی جرم پر مجبور کرنے والی ہو تو اسے سزا دینے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن اگر حکومت کے سوا کسی اور نے مجبور کیا ہو تو زانی کو سزا دی جائے گی، کیونکہ ارتکاب زنا بہر حال وہ اپنی شہوت کے بغیر نہ کرسکتا تھا اور شہوت جبراً پیدا نہیں کی جاسکتی۔ ان تینوں اقوال میں سے پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انتشار عضو چاہے شہوت کی دلیل ہو مگر رضا ورغبت کی لازمی دلیل نہیں ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک ظالم کسی شریف آدمی کو زبردستی پکڑ کر قید کردیتا ہے اور اس کے ساتھ ایک جوان، خوبصورت عورت کو بھی برہنہ کر کے ایک ہی کمرے میں بند رکھتا ہے اور اسے اس وقت تک رہا نہیں کرتا جب تک کہ وہ زنا کا مرتکب نہ ہوجائے۔ اس حالت میں اگر یہ دونوں زنا کے مرتکب ہوجائیں اور وہ ظالم اس کے چار گواہ بنا کر انہیں عدالت میں پیش کر دے تو کیا یہ انصاف ہوگا کہ ان کے حالات کو نظر انداز کر کے انہیں سنگسار کردیا جائے یا ان پر کوڑے برسائے جائیں ؟ اس طرح کے حالات میں عقلاً یا عادتاً ممکن ہیں جن میں شہوت لاحق ہو سکتی ہے، بغیر اس کے کہ اس میں آدمی کی اپنی رضا ورغبت کا دخل ہو۔ اگر کسی شخص کو قید کر کے شراب کے سوا پینے کو کچھ نہ دیا جائے، اور اس حالت میں وہ شراب پی لے تو کیا محض اس دلیل سے اس کو سزا دی جاسکتی ہے کہ حالات تو واقعی اس کے لیے مجبوری کے تھے مگر حلق سے شراب کا گھونٹ وہ اپنے ارادے کے بغیر نہ اتار سکتا تھا ؟ جرم کے متحقق ہونے کے لیے محض ارادے کا پایا جانا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے آزاد ارادہ ضروری ہے۔ جو شخص زبردستی ایسے حالات میں مبتلا کیا گیا ہو کہ وہ جرم کا ارادہ کرنے پر مجبور ہوجائے وہ بعض صورتوں میں تو قطعی مجرم نہیں ہوتا، اور بعض صورتوں میں اس کا جرم بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔ (12) اسلامی قانون حکومت کے سوا کسی کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ زانی اور زانیہ کے خلاف کار روائی کرے، اور عدالت کے سوا کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اس پر سزا دے۔ اس امر پر تمام امت کے فقہاء کا اتفاق ہے کہ آیت زیر بحث میں حکم فاجلدوا (ان کو کوڑے مارو) کے مخاطب عوام نہیں ہیں بلکہ اسلامی حکومت کے حکام اور قاضی ہیں۔ البتہ غلام کے معاملے میں اختلاف ہے کہ اس پر اس کا آقا حد جاری کرنے کا مجاز ہے یا نہیں۔ مذہب حنفی کے تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ وہ اس کا مجاز نہیں ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں وہ مجاز ہے۔ اور مالکیہ کہتے ہیں کہ آقا کو سرقہ میں ہاتھ کاٹنے کا تو حق نہیں ہے مگر زنا، قذف اور شراب نوشی پر وہ حد جاری کرسکتا ہے۔ (13) اسلامی قانون زنا کی سزا کو قانون مملکت کا ایک حصہ قرار دیتا ہے اس لیے مملکت کی تمام رعایا پر یہ حکم جاری ہوگا خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اس سے امام مالک کے سوا غالباً ائمہ میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ رجم کی سزا غیر مسلموں پر جاری کرنے میں امام ابوحنیفہ کا اختلاف اس بنیاد پر نہیں ہے کہ یہ قانون مملکت نہیں ہے، بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نزدیک رجم کی شرائط میں سے ایک شرط زانی کا پورا محصن ہونا ہے اور احصان کی تکمیل اسلام کے بغیر نہیں ہوتی، اس وجہ سے وہ غیر مسلم زانی کو رجم کی سزا سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ بخلاف اس کے امام مالک کے نزدیک اس حکم کے مخاطب مسلمان ہیں نہ کہ کافر، اس لیے وہ حد زنا کو مسلمانوں کے شخصی قانون (پرسنل لا) کا ایک جز قرار دیتے ہیں۔ رہا مستامن (جو کسی دوسرے ملک سے دار الاسلام میں اجازت لے کر آیا ہو) تو امام شافعی اور امام ابو یوسف کے نزدیک وہ بھی اگر دار الاسلام میں زنا کرے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ لیکن امام ابوحنیفہ اور امام محمد کہتے ہیں کہ ہم اس پر حد جاری نہیں کرسکتے۔ (14) اسلامی قانون یہ لازم نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنے جرم کا خود اقرار کرے، یا جو لوگ کسی شخص کے جرم زنا پر مطلع ہوں وہ ضرور ہی اس کی خبر حکام تک پہنچائیں۔ البتہ جب حکام اس پر مطلع ہوجائیں تو پھر اس جرم کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا من اتی شیئا من ھٰذہ القاذورات فلیستتر بستر اللہ فان ابدیٰ لنا صفحۃ اقمنا علیہ کتاب اللہ (احکام القرآن، للجصاص)۔ " تم میں سے جو شخص ان گندے کاموں میں سے کسی کا مرتکب ہوجائے تو اللہ کے ڈالے ہوئے پردے میں چھپا رہے۔ لیکن اگر وہ ہمارے سامنے اپنا پردہ کھولے گا تو ہم اس پر کتاب اللہ کا قانون نافذ کر کے چھوڑیں گے "۔ ابو داؤد میں ہے کہ ماعز بن مالک اسلمی سے جب زنا کا جرم سرزد ہوگیا تو ہزّال بن نعیم نے ان سے کہا کہ جا کر نبی ﷺ کے سامنے اپنے اس جرم کا اقرار کرو۔ چناچہ انہوں نے جا کر حضور سے اپنا جرم بیان کردیا۔ اس پر حضور نے ایک طرف تو انہیں رجم کی سزا دی اور دوسری طرف ہزّال سے فرمایا لو سترتہ بثوبک کان خیراً لک " کاش تم اس کا پردہ ڈھانک دیتے تو تمہارے لیے زیادہ اچھا تھا "۔ ابوداؤد اور نسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا تعافوا الحدود فی ما بینکم فما بلغنی من حد فقد وجب، " حدود کو آپس ہی میں معاف کردیا کرو۔ مگر جس حد (یعنی جرم مستلزم حد) کا معاملہ مجھ تک پہنچ جائے گا پھر وہ واجب ہوجائے گی۔ " (15) اسلامی قانون میں یہ جرم قابل راضی نامہ نہیں ہے۔ قریب قریب تمام کتب حدیث میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اجرت پر کام کرتا تھا اور وہ اس کی بیوی سے زنا کا مرتکب ہوگیا۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر اس شخص کو راضی کیا۔ مگر جب یہ مقدمہ نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا اما غنمک و جاریتک فردٌّ علیک۔ " تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس "، اور پھر آپ نے زانی اور زانیہ دونوں پر حد جاری فرما دی اس سے صرف یہی نہیں معلوم ہوتا کہ اس جرم میں راضی نامہ کی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قانون میں عصمتوں کا معاوضہ مالی تاوانوں کی شکل میں نہیں دلوایا جاسکتا۔ آبرو کی قیمت کا یہ دیّوثانہ تصور مغربی قوانین ہی کو مبارک رہے۔ (16) اسلامی حکومت کسی شخص کے خلاف زنا کے جرم میں کوئی کارروائی نہ کرے گی جب تک کہ اس کے جرم کا ثبوت مل جائے۔ ثبوت جرم کے بغیر کسی کی بد کاری خواہ کتنے ہی ذرائع سے حکام کے علم میں ہو، وہ بہرحال اس پر حد جاری نہیں کرسکتے۔ مدینے میں ایک عورت تھی جس کے متعلق روایات ہیں کہ وہ کھلی کھلی فاحشہ تھی۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کانت تظھر فی الاسلام السوء، دوسری روایت میں ہے کانت قد اعلنت فی الاسلام۔ ابن ماجہ کی روایت ہے فقد ظھر منھا الرّیبۃ فیْ منطقہا و ھیئتھا ومن یدخل علیھا، لیکن چونکہ اس کے خلاف بد کاری کا ثبوت نہ تھا اس لیے اسے کوئی سزا نہ دی گئی، حالانکہ اس کے متعلق نبی ﷺ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ تک نکل گئے تھے کہ لوکنت راجماً احداً بغیر بینۃ لرجم تھا، " اگر میں ثبوت کے بغیر رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو ضرور رجم کرا دیتا "۔ (17) جرم زنا کا پہلا ممکن ثبوت یہ ہے کہ شہادت اس پر قائم ہو۔ اس کے متعلق قانون کے اہم اجزاء یہ ہیں الف قرآن تصریح کرتا ہے کہ زنا کے لیے کم سے کم چار عینی شاہد ہونے چاہییں۔ اس کی صراحت سورة نساء آیت 15 میں بھی گزر چکی ہے اور آگے اسی سورة نور میں بھی دو جگہ آ رہی ہے۔ شہادت کے بغیر قاضی محض اپنے علم کی بنا پر فیصلہ نہیں کرسکتا خواہ وہ اپنی آنکھوں سے ارتکاب جرم ہوتے دیکھ چکا ہو۔ ب گواہ ایسے لوگ ہونے چاہییں جو اسلامی قانون شہادت کی رو سے قابل اعتماد ہوں، مثلاً یہ کہ وہ پہلے کسی مقدمے میں جھوٹے گواہ ثابت نہ ہوچکے ہوں، خائن نہ ہوں، پہلے کے سزا یافتہ نہ ہوں، ملزم سے ان کی دشمنی ثابت نہ ہو، وغیرہ۔ بہرحال ناقابل اعتماد شہادت کی بنا پر نہ تو کسی کو رجم کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی کی بیٹھ پر کوڑے برسائے جاسکتے ہیں۔ ج گواہوں کو اس بات کی شہادت دینی چاہیے کہ انہوں نے ملزم اور ملزمہ کو عین حالت مباشرت میں دیکھا ہے، یعنی کالمیل فی المکحلۃ و الرشاء فی البئر (اس طرح جیسے سرمہ دانی میں سلائی اور کنویں میں رسی)۔ د گواہوں کو اس امر میں متفق ہونا چاہیے کہ انہوں نے کب، کہاں، کس کو، کس سے زنا کرتے دیکھا ہے۔ ان بنیادی امور میں اختلاف ان کی شہادت کو ساقط کردیتا ہے۔ شہادت کی یہ شرائط خود ظاہر کر رہی ہیں کہ اسلامی قانون کا منشا یہ نہیں ہے کہ ٹکٹکیاں لگی ہوں اور روز لوگوں کی پیٹھوں پر کوڑے برستے رہیں۔ بلکہ وہ ایسی حالت ہی میں یہ سخت سزا دیتا ہے جب کہ تمام اصلاحی اور انسدادی تدابیر کے باوجود اسلامی معاشرے میں کوئی جوڑا ایسا بےحیا ہو کہ چار چار آدمی اس کو جرم کرتے دیکھ لیں۔ (18) اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا محض حمل کا پایا جانا، جب کہ عورت کا کوئی شوہر، یا لونڈی کا کوئی آقا معلوم و معروف نہ ہو، ثبوت زنا کے لیے کافی شہادت بالقرینہ ہے یا نہیں۔ حضرت عمر کی رائے یہ ہے کہ یہ کافی شہادت ہے اور اسی کو مالکیہ نے اختیار کیا ہے۔ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ محض حمل اتنا مضبوط قرینہ نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر کسی کو رجم کردیا جائے یا کسی کی بیٹھ پر سو کوڑے برسا دیے جائیں۔ اتنی بڑی سزا کے لیے ناگزیر ہے کہ یا تو شہادت موجود ہو، یا پھر اقرار۔ اسلامی قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ شبہ سزا دینے کے لیے نہیں بلکہ معاف کرنے کے لیے محرک ہونا چاہیے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ ادفعوا الحدود ما وجدتم لھا مدفعا، " سزاؤں کو دفع کرو جہاں تک بھی ان کو دفع کرنے کی گنجائش پاؤ " (ابن ماجہ)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے ادرؤا الحدود عن المسلمین ما استطعتم فان کان لہ مخرجٌ فخلوا سبیلہ فان الامام ان یخطئ فی العفو خیر من ان یخطئ فی العقوبۃ، " مسلمانوں سے سزاؤں کو دور رکھو جہاں تک بھی ممکن ہو۔ اگر کسی ملزم کے لیے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ حاکم کا معاف کردینے میں غلطی کر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کر جائے " (ترمذی)۔ اس قاعدے کے لحاظ سے حمل کی موجودگی، چاہے شبہ کے لیے کتنی ہی قوی بنیاد ہو، زنا کا یقینی ثبوت بہرحال نہیں ہے، اس لیے کہ لاکھ میں ایک درجے کی حد تک اس امر کا بھی امکان ہے کہ مباشرت کے بغیر کسی عورت کے رحم میں کسی مرد کے نطفے کا کوئی جز پہنچ جائے اور وہ حاملہ ہوجائے۔ اتنے خفیف شبہ کا امکان بھی اس کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ ملزمہ کو زنا کی ہولناک سزا سے معاف رکھا جائے۔ (19) اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ اگر زنا کے گواہوں میں اختلاف ہوجائے، یا اور کسی وجہ سے ان کی شہادتوں سے جرم ثابت نہ ہو تو کیا الٹے گواہ جھوٹے الزام کی سزا پائیں گے ؟ فقہاء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ اس صورت میں وہ قاذف قرار پائیں گے اور انہیں 80 کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ان کو سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ وہ گواہ کی حیثیت سے آئے ہیں نہ کہ مدعی کی حیثیت سے۔ اور اگر اس طرح گواہوں کو سزا دی جائے تو پھر زنا کی شہادت بہم پہنچنے کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا۔ آخر کس کی شامت نے دھکا دیا ہے کہ سزا کا خطرہ مول لے کر شہادت دینے آئے جب کہ اس مار کا یقین کسی کو بھی نہیں ہوسکتا کہ چاروں گواہوں میں سے کوئی ٹوٹ نہ جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری رائے معقول ہے، کیونکہ شبہ کا فائدہ جس طرح ملزم کو ملنا چاہیے، اسی طرح گواہوں کو بھی ملنا چاہیے۔ اگر ان کی شہادت کی کمزوری اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ملزم کو زنا کی خوفناک سزا دے ڈالی جائے، تو اسے اس بات کے لیے بھی کافی نہ ہونا چاہیے کہ گواہوں پر قذف کی خوفناک سزا برسا دی جائے، اِلّا یہ کہ ان کا صریح جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے۔ پہلے قول کی تائید میں دو بڑی دلیلیں دی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ قرآن زنا کی جھوٹی تہمت کو مستوجب سزا قرار دیتا ہے لیکن یہ دلیل اس لیے غلط ہے کہ قرآن خود قاذف (تہمت لگانے والے) اور شاہد کے درمیان فرق کر رہا ہے، اور شاہد محض اس بنا پر قاذف قرار نہیں پاسکتا کہ عدالت نے اس کی شہادت کو ثبوت جرم کے لیے کافی نہیں پایا۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے میں حضرت عمر نے ابو بکْرَہ اور ان کے دو ساتھی شاہدوں کو قذف کی سزا دی تھی۔ لیکن اس مقدمے کی پوری تفصیلات دیکھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ نظیر ہر اس مقدمے پر چسپاں نہیں ہوتی جس میں ثبوت جرم کے لیے شہادتیں نا کافی پائی جائیں۔ مقدمے کے واقعات یہ ہیں کہ بصرے کے گورنر مغیرہ بن شعبہ سے ابو بکرہ کے تعلقات پہلے سے خراب تھے۔ دونوں کے مکان ایک ہی سڑک پر آمنے سامنے واقع تھے۔ ایک روز یکایک ہوا کے زور سے دونوں کے کمروں کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ ابو بکرہ اپنی کھڑکی بند کرنے کے لیے اٹھے تو ان کی نگاہ سامنے کے کمرے پر پڑی اور انہوں نے حضرت مغیرہ کو مباشرت میں مشغول دیکھا۔ ابو بکرہ کے پاس ان کے تین دوست (نافع بن کَلَدَہ، زیاد، اور شبل بن مَعْبَد) بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آؤ، دیکھو اور گواہ رہو کہ مغیرہ کیا کر رہے ہیں۔ دوستوں نے پوچھا یہ عورت کون ہے۔ ابو بکرہ نے کہا ام جمیل۔ دوسرے روز اس کی شکایت حضرت عمر کے پاس بھیجی گئی۔ انہوں نے فوراً حضرت مغیرہ کو معطل کر کے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو بصرے کا گورنر مقرر کیا اور ملزم کو گواہوں سمیت مدینے طلب کرلیا۔ پیشی پر ابو بکرہ اور دو گواہوں نے کہا کہ ہم نے مغیرہ کو ام جمیل کے ساتھ بالفعل مباشرت کرتے دیکھا۔ مگر زیاد نے کہا کہ عورت صاف نظر نہیں آتی تھی اور میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ ام جمیل تھی۔ مغیرہ بن شعبہ نے جرح میں یہ ثابت کردیا کہ جس رخ سے یہ لوگ انہیں دیکھ رہے تھے اس سے دیکھنے والا عورت کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا تھا۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ ان کی بیوی اور ام جمیل باہم بہت مشابہ ہیں۔ قرائن خود بتا رہے تھے کہ حضرت عمر کی حکومت میں ایک صوبے کا گورنر، خود اپنے سرکاری مکان میں، جہاں اس کی بیوی اس کے ساتھ رہتی تھی، ایک غیر عورت کو بلا کر زنا نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے ابو بکرہ اور ان کے ساتھیوں کا یہ سمجھنا کہ مغیرہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے بجائے ام جمیل سے مباشرت کر رہے ہیں۔ ایک نہایت بےجا بد گمانی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر نے صرف ملزم کو بری کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ابو بکرہ نافع اور شبل پر حدّ قذف بھی جاری فرمائی۔ یہ فیصلہ اس مقدمے کے مخصوص حالات کی بنا پر تھا نہ کہ اس قاعدہ کلیہ کی بنا پر کہ جب کبھی شہادتوں سے جرم زنا ثابت نہ ہو تو گواہ ضرور پیٹ ڈالے جائیں۔ (مقدمے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو احکام القرآن ابن العربی جلد 2۔ صفحہ 88۔ 89)۔ (20) شہادت کے سوا دوسری چیز جس سے جرم زنا ثابت ہوسکتا ہے وہ مجرم کا اپنا اقرار ہے۔ یہ اقرار صاف اور صریح الفاظ میں فعل زنا کے ارتکاب کو ہونا چاہیے، یعنی اسے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ اس نے ایک ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام تھی کالمیل فی المکحلۃ یہ فعل کیا ہے۔ اور عدالت کو پوری طرح یہ اطمینان کرلینا چاہیے کہ مجرم کسی خارجہ دباؤ کے بغیر بطور خود بحالت ہوش و حواس یہ اقرار کر رہا ہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ایک اقرار کافی نہیں ہے بلکہ مجرم کو چار مرتبہ الگ الگ اقرار کرنا چاہیے (یہ امام ابو حنیفہ، امام احمد، ابن ابی لیلیٰ ، اسحاق بن راہَوْیہ اور حسن بن صالح کا مسلک ہے)۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ایک ہی اقرار کافی ہے (امام مالک، امام شافعی، عثمان البتی اور حسن بصری وغیرہ اس کے قائل ہیں) پھر ایسی صورت میں جبکہ کسی دوسرے تائیدی ثبوت کے بغیر صرف مجرم کے اپنے ہی اقرار پر فیصلہ کیا گیا ہو اگر عین سزا کے دوران میں بھی مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو سزا کو روک دینا چاہیے، خواہ یہ بات صریحاً ہی کیوں نہ ظاہر ہو رہی ہو کہ وہ مار کی تکلیف سے بچنے کے لیے اقرار سے رجوع کر رہا ہے۔ اس پورے قانون کا ماخذ وہ نظائر ہیں جو زنا کے مقدمات کے متعلق احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا مقدمہ ماعز بن مالک اسلمی کا ہے جسے متعدد صحابہ سے بکثرت راویوں نے نقل کیا ہے اور قریب قریب تمام کتب حدیث میں اس کی روایات موجود ہیں۔ یہ شخص قبیلہ اسلم کا ایک یتیم لڑکا تھا جس نے حضرت ہَزّال بن نعیم کے ہاں پرورش پائی تھی۔ یہاں وہ ایک آزاد کردہ لونڈی سے زنا کر بیٹھا۔ حضرت ہزال نے کہا کہ جا کر نبی ﷺ کو اپنے اس گناہ کی خبر دے، شاید کہ آپ تیرے لیے دعائے مغفرت فرما دیں۔ اس نے جا کر مسجد نبوی میں حضور سے کہا یا رسول اللہ، مجھے پاک کردیجیے، میں نے زنا کی ہے۔ آپ نے منہ پھیرلیا اور فرمایا ویحک ارجع فاستغفر اللہ وتب الیہ۔ " ارے چلا جا اور اللہ سے توبہ و استغفار کر "۔ مگر اس نے پھر سامنے آ کر وہی بات کہی اور آپ نے پھر منہ پھیرلیا۔ اس نے تیسری بار وہی بات کہی اور آپ نے پھر منہ پھیرلیا۔۔ حضرت ابوبکر نے اس کو متنبہ کیا کہ دیکھ، اب چوتھی بار اگر تو نے اقرار کیا تو رسول اللہ تجھے رجم کرا دیں گے۔ مگر وہ نہ مانا اور پھر اس نے اپنی بات دہرائی۔ اب حضور اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے فرمایا لعلک قبلت اور غمزت اونظرت " شاید تو نے بوس و کنار کیا ہوگا یا چھیڑ چھاڑ کی ہوگی یا نظر بد ڈالی ہوگی "۔ (اور تو سمجھ بیٹھا ہوگا کہ یہ زنا کا ارتکاب ہے)۔ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے پوچھا " کیا تو اس سے ہم بستر ہوا "؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا " کیا تو نے اس سے مباشرت کی "؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا " کیا تو نے اس سے مجامعت کی "؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر آپ نے وہ لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں خاص فعل مباشرت ہی کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور یہ فحش لفظ حضور کی زبان سے نہ پہلے کبھی سنا گیا نہ اس کے بعد کسی نے سنا۔ اگر ایک شخص کی جان کا معاملہ نہ ہوتا تو زبان مبارک سے کبھی ایسا لفظ نہ نکل سکتا تھا مگر اس نے اس کے جواب میں بھی ہاں کہہ دیا۔ آپ نے پوچھا حتّیٰ غاب ذٰلک منک فی ذٰلک منھا (کیا اس حد تک کہ تیری وہ چیز اس کی اس چیز میں غائب ہوگئی ؟)۔ اس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا کما یغیب المیل فی المکحلۃ و الرشاء فی البئر (کیا اس طرح غائب ہوگئی جیسے سرمہ دانی میں سلائی اور کنویں میں رسی ؟) اس نے کہا ہاں۔ پوچھا " کیا تو جانتا ہے کہ زنا کسے کہتے ہیں "؟ اس نے کہا " جی ہاں، میں نے اس کے ساتھ حرام طریقے سے وہ کام کیا جو شوہر حلال طریقے سے اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہے " آپ نے پوچھا " کیا تیری شادی ہوچکی ہے "؟ اس نے کہا " جی ہاں "۔ آپ نے پوچھا " تو نے شراب تو نہیں پی لی ہے "؟ اس نے کہا نہیں۔ ایک شخص نے اٹھ کر اس کا منہ سونگھا اور تصدیق کی۔ پھر آپ نے اس کے محلہ والوں سے دریافت کیا کہ یہ دیوانہ تو نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا ہم نے اس کی عقل میں کوئی خرابی نہیں دیکھی۔ آپ نے ہزّال سے فرمایا لو سترتہ بثوبک کان خیرا لک، کاش تم نے اس کا پردہ ڈھانک دیا ہوتا تو تمہارے لیے اچھا تھا۔ پھر آپ نے ماعز کو رجم کرنے کا فیصلہ صادر فرما دیا اور اسے شہر کے باہر لے جا کر سنگسار کردیا گیا۔ جب پتھر پڑنے شروع ہوئے تو ماعز بھاگا اور اس نے کہا " لوگو، مجھے رسول اللہ کے پاس واپس لے چلو، میرے قبیلے کے لوگوں نے مجھے مروا دیا۔ انہوں نے مجھے دھوکا دیا کہ رسول اللہ مجھے قتل نہیں کرائیں گے "۔ مگر مارنے والوں نے اسے مار ڈالا۔ بعد میں جب حضور کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا " تم لوگوں نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا۔ میرے پاس لے آئے ہوتے، شاید وہ توبہ کرتا اور اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا "۔ دوسرا واقعہ غامدیہ کا ہے جو قبیلہ غامد (قبیلہ جُہَینَہ کی ایک شاخ) کی ایک عورت تھی۔ اس نے بھی آ کر چار مرتبہ اقرار کیا کہ وہ زنا کی مرتکب ہوئی ہے اور اسے ناجائز حمل ہے آپ نے اس سے بھی پہلے اقرار پر فرمایا ویحک ارجعی فاستغفری الی اللہ و توبی الیہ، (" اری چلی جا، اللہ سے معافی مانگ اور توبہ کر ") مگر اس نے کہا " یا رسول اللہ کیا آپ مجھے معز کی طرح ٹالنا چاہتے ہیں۔ میں زنا سے حاملہ ہوں "۔ یہاں چونکہ اقرار کے ساتھ حمل بھی موجود تھا، اس لیے آپ نے اس قدر مفصل جرح نہ فرمائی جو معز کے ساتھ کی تھی۔ آپ نے فرمایا " اچھا، نہیں مانتی تو جا، وضع حمل کے بعد آئیو "۔ وضع حمل کے بعد وہ بچے کو لے کر آئی اور ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی لیتی آئی بچے کو روٹی کا ٹکڑا کھلا کر حضور کو دکھایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ اب اس کا دودھ چھوٹ گیا ہے اور دیکھیے یہ روٹی کھانے لگا ہے۔ تب آپ نے بچے کو پرورش کے لیے ایک شخص کے حوالے کیا اور اس کے رجم کا حکم دیا۔ ان دونوں واقعات میں بصراحت چار اقراروں کا ذکر ہے۔ اور ابو داؤد میں حضرت بُرَیْدَہ کی روایت ہے کہ صحابہ کرام کا عام خیال یہی تھا کہ اگر ماعز اور غامدیہ چار مرتبہ اقرار نہ کرتے تو انہیں رجم نہ کیا جاتا۔ البتہ تیسرا واقعہ (جس کا ذکر ہم اوپر نمبر 15 میں کرچکے ہیں) اس میں صرف یہ الفاظ ملتے ہیں کہ " جا کر اس کی بیوی سے پوچھ، اور اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دے " اس میں چار اعترافوں کا ذکر نہیں ہے، اور اسی سے فقہاء کے ایک گروہ نے استدلال کیا ہے کہ ایک ہی اعتراف کافی ہے۔ (21) اوپر ہم نے جن تین مقدمات کی نظیریں پیش کی ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقراری مجرم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اس نے کس سے زنا کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ اس طرح ایک کے بجائے دو کو سزا دینی پڑے گی، اور شریعت لوگوں کو سزائیں دینے کے لیے بےچین نہیں ہے۔ البتہ اگر مجرم خود یہ بتائے کہ اس فعل کا فریق ثانی فلاں ہے تو اس سے پوچھا جائے گا۔ اگر وہ بھی اعتراف کرے تو اسے سزا دی جائے گی لیکن اگر وہ انکار کر دے تو صرف اقراری مجرم ہی حد کا مستحق ہوگا۔ اس امر میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ اس دوسری صورت میں (یعنی جبکہ فریق ثانی اس کے ساتھ مرتکب زنا ہونے کو تسلیم نہ کرے) اس پر آیا حد زنا جاری کی جائے گی یا حد قذف۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک وہ حد زنا کا مستوجب ہے، کیونکہ اسی جرم کا اس نے اقرار کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی کی رائے میں اس پر حد قذف جاری کی جائے گی، کیونکہ فریق ثانی کے انکار نے اس کے جرم زنا کو مشکوک کردیا ہے، البتہ اس کا جرم قذف بہرحال ثابت ہے۔ اور امام محمد کا فتویٰ ہے (امام شافعی کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے) اسے زنا کی سزا بھی دی جائے گی اور قذف کی بھی، کیونکہ اپنے جرم زنا کا وہ خود معترف ہے، اور فریق ثانی پر اپنا الزام وہ ثابت نہیں کرسکا ہے۔ نبی ﷺ کی عدالت میں اس قسم کا ایک مقدمہ آیا تھا۔ اس کی ایک روایت جو مسند احمد اور ابو داؤد میں سہل بن سعد سے منقول ہے اس میں یہ الفاظ ہیں " ایک شخص نے آ کر نبی ﷺ کے سامنے اقرار کیا کہ وہ فلاں عورت سے زنا کا مرتکب ہوا ہے۔ آپ نے عورت کو بلا کر پوچھا۔ اس نے انکار کیا۔ آپ نے اس پر حد جاری کی اور عورت کو چھوڑ دیا "۔ اس روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ کونسی حد جاری کی۔ دوسری روایت ابو داؤد اور نسائی نے ابن عباس سے نقل کی ہے اور اس میں یہ ہے کہ پہلے اس کے اقرار پر آپ نے حد زنا جاری کی، پھر عورت سے پوچھا اور اس کے انکار پر اس شخص کو حد قذف کے کوڑے لگوائے۔ لیکن یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے، کیونکہ اس کے ایک راوی قاسم بن فیاض کو متعدد محدثین نے ساقط الاعتبار ٹھہرایا ہے، اور قیاس کے بھی خلاف ہے، اس لیے کہ نبی ﷺ سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ آپ نے اسے کوڑے لگوانے کے بعد عورت سے پوچھا ہوگا۔ صریح عقل اور انصاف کا تقاضا، جسے حضور نظر انداز نہیں فرما سکتے تھے، یہ تھا کہ جب اس نے عورت کا نام لے دیا تھا تو عورت سے پوچھے بغیر اس کے مقدمے کا فیصلہ نہ کیا جاتا۔ اسی کی تائید سہل بن سعد والی روایت بھی کر رہی ہے۔ لہٰذا دوسری روایت لائق اعتماد نہیں ہے۔ (22) ثبوت جرم کے بعد زانی اور زانیہ کو کیا سزا دی جائے گی، اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوگیا ہے، مختلف فقہاء کے مسلک اس باب میں حسب ذیل ہیں شادی شدہ مرد و عورت کے لیے زنا کی سزا امام احمد، داؤد ظاہر اور اسحاق بن راہویہ کے نزدیک سو کوڑے لگانا اور اس کے بعد سنگسار کرنا ہے۔ باقی تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی سزا صرف سنگساری ہے۔ رجم اور سزائے تازیانہ کو جمع نہیں کیا جائے گا۔ غیر شادی شدہ کی سزا امام شافعی، امام احمد، اسحاق، داؤد ظاہری، سفیان ثوری، ابن ابی لیلیٰ اور حسن بن صالح کے نزدیک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی، مرد عورت ہر دو کے لیے۔ (جلا وطنی سے مراد ان سب کے نزدیک یہ ہے کہ مجرم کو اس کی بستی سے نکال کر کم از کم اتنے فاصلے پر بھیج دیا جائے جس پر نماز میں قصر واجب ہوتا ہے۔ مگر زید بن علی اور امام جعفر صادق کے نزدیک قید کردینے سے بھی جلا وطنی کا مقصد پورا ہوجاتا ہے) امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگرد امام ابو یوسف، امام زُفَر اور امام محمد کہتے ہیں کہ اس صورت میں حد زنا مرد اور عورت دونوں کے لیے صرف سو کوڑے ہے۔ اس پر کسی اور سزا، مثلاً قید یا جلا وطنی کا اضافہ حد نہیں بلکہ تعزیر ہے۔ قاضی اگر یہ دیکھے کہ مجرم بد چلن ہے، یا مجرم اور مجرمہ کے تعلقات بہت گہرے ہیں تو حسب ضرورت وہ انہیں خارج البلد بھی کرسکتا ہے اور قید بھی کرسکتا ہے۔ (حد اور تعزیر میں فرق اس سزا کو کہتے ہیں جو قانون میں بلحاظ مقدار و نوعیت بالکل مقرر نہ کردی گئی ہو، بلکہ جس میں عدالت حالات مقدمہ کے لحاظ سے کمی بیشی کرسکتی ہو) ان مختلف مسالک میں سے ہر ایک نے مختلف احادیث کا سہارا لیا ہے جن کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں حضرت عبادہ بن صامت کی روایت، جسے مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ، ترمذی اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا خذوا عنی خذوا عنی، قد جعل اللہ لھن سبیلا، البکر بالبکر جلد ماۃ و تعریب عام و الثیب بالثیب جلد مأۃ والرجم (او رمی بالحجارۃ۔ اور جم با لحجارۃ) " مجھ سے لو، مجھ سے لو، اللہ نے زانیہ عورتوں کے لیے طریقہ مقرر کردیا۔ غیر شادی شدہ مرد کی غیر شادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی، اور شادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور سنگساری " (یہ حدیث اگرچہ سنداً صحیح ہے، مگر روایات صحیحہ کا ایک جم غفیر ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس پر نہ عہد نبوی میں کبھی عمل ہوا، نہ عہد خلفائے راشدین میں، اور نہ فقہاء میں سے کسی نے ٹھیک اس کے مضمون کے مطابق فتویٰ دیا۔ فقہ اسلامی میں جو بات متفق علیہ ہے وہ یہ ہے کہ زانی اور زانیہ کے محصن اور غیر محصن ہونے کا الگ الگ اعتبار کیا جائے گا۔ غیر شادی شدہ مرد خواہ شادی شدہ عورت سے زنا کرے یا غیر شادی شدہ ہر دو حالتوں میں اس کو ایک ہی سزا دی جائے گی۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔ وہ شادی شدہ ہو تو ہر حالت میں ایک ہی سزا پائے گی خواہ اس سے زنا کرنے والا مرد شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اور باکرہ ہونے کی صورت میں بھی اس کے لیے ایک ہی سزا ہے بلا اس لحاظ کے کہ اس کے ساتھ زنا کرنے والا محصن ہے یا غیر محصن) ، حضرت ابوہریرہ اور حضرت زید بن خالد جہنی کی روایت، جسے بخاری، مسلم ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ ہے کہ دو اعرابی نبی ﷺ کے پاس مقدمہ لائے۔ ایک نے کہا کہ میرا بیٹا اس شخص کے ہاں اجرت پر کام کرتا تھا۔ وہ اس کی بیوی سے ملوث ہوگیا۔ میں نے اس کو سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر راضی کیا۔ مگر اہل علم نے بتایا کہ یہ کتاب اللہ کے خلاف ہے۔ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرما دیں اور دوسرے نے بھی کہا کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرما دیں۔ حضور نے فرمایا میں کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ بکریاں اور لونڈی تجھی کو واپس۔ تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی۔ پھر آپ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے فرمایا اے اُنَیس، تو جا کر اس کی بیوی سے پوچھ۔ اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دے۔ چناچہ اس نے اعتراف کیا اور رجم کردی گئی۔ (اس میں رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور غیر شادی شدہ مرد کو شادی شدہ عورت سے بدکاری کرنے پر تازیانے اور جلا وطنی کی سزا دی گئی ہے)۔ ماعز اور غامدیہ کے مقدمات کی جتنی رودادیں احادیث کی مختلف کتابوں میں مروی ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ملتا کہ حضور نے رجم کرانے سے پہلے ان کو سو کوڑے بھی لگوائے ہوں۔ کوئی روایت کسی حدیث میں نہیں ملتی کہ نبی ﷺ نے کسی مقدمے میں رجم کے ساتھ سزائے تازیانہ کا بھی فیصلہ فرمایا ہو۔ زنا بعد احصان کے تمام مقدمات میں آپ نے صرف رجم کی سزا دی ہے۔ حضرت عمر کا مشہور خطبہ جس میں انہوں نے پورے زور کے ساتھ زنا بعد احصان کی سزا رجم بیان کی ہے، بخاری و مسلم اور ترمذی و نسائی نے مختلف سندوں سے نقل کیا ہے اور امام احمد نے بھی اس کی متعدد روایتیں لی ہیں، مگر اس کی کسی روایت میں بھی رجم مع سزائے تازیانہ کا ذکر نہیں ہے۔ خلفائے راشدین میں سے صرف حضرت علی نے سزائے تازیانہ اور سنگساری کو ایک سزا میں جمع کیا ہے۔ امام احمد اور بخاری عامر شعبی سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک عورت شراحہ نامی نے ناجائز حمل کا اعتراف کیا، حضرت علی نے جمعرات کے روز اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے روز اس کو رجم کرایا، اور فرمایا ہم نے اسے کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول اللہ کے مطابق سنگسار کرتے ہیں۔ اس ایک واقعہ کے سوا عہد خلافت راشدہ کا کوئی دوسرا واقعہ رجم مع تازیانہ کے حق میں نہیں ملتا۔ جابر بن عبداللہ کی ایک روایت، جسے ابو داؤد اور نسائی نے نقل کیا ہے، یہ بتاتی ہے کہ ایک شخص زنا کا مرتکب ہوا اور نبی ﷺ نے اس کو صرف سزائے تازیانہ دی، پھر معلوم ہوا کہ وہ شادی شدہ تھا، تب آپ نے اسے رجم کرایا۔ اس کے علاوہ متعدد روایات ہم پہلے نقل کر آئے ہیں جن سے معلوم ہاتا ہے کہ غیر شادی شدہ زانیوں کو آپ نے صرف سزائے تازیانہ دی، مثلاً وہ شخص جس نے نماز کے لیے جاتی ہوئی عورت سے زنا بالجبر کی تھی، اور وہ شخص جس نے زنا کا اعتراف کیا اور عورت نے انکار کیا۔ حضرت عمر نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کو شراب نوشی کے جرم میں جلا وطن کیا اور وہ بھاگ کر رومیوں سے جا ملا۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ آئندہ میں کسی کو جلا وطنی کی سزا نہیں دوں گا۔ اسی طرح حضرت علی نے غیر شادی شدہ مرد و عورت کو زنا کے جرم میں جلا وطن کرنے سے انکار کردیا، اور فرمایا کہ اس میں فتنے کا اندیشہ ہے (احکام القرآن، جصاص، جلد 3، صضحہ 315)۔ ان تمام روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا مسلک ہی صحیح ہے، یعنی زنا بعد احصان کی حد صرف رجم ہے، اور محض زنا کی حد صرف 100 کوڑے۔ تازیانے اور رجم کو جمع کرنے پر تو عہد نبوی سے لے کر عہد عثمانی تک کبھی عمل ہی نہیں ہوا۔ رہا تازیانے اور جلا وطنی کو جمع کرنا، تو اس پر کبھی عمل ہوا ہے اور کبھی نہیں ہوا۔ اس سے مسلک حنفی کی صحت صاف ثابت ہوجاتی ہے۔ (23) ضرب تازیانہ کی کیفیت کے متعلق پہلا اشارہ خود قرآن کے لفظ فَاجْلِدُوْا میں ملتا ہے۔ جَلد کا لفظ جلد (یعنی کھال) سے ماخوذ ہے۔ اس سے تمام اہل لغت اور علمائے تفسیر نے یہی معنی لیے ہیں کہ مار ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر جلد تک رہے، گوشت تک نہ پہنچے۔ ایسی ضرب تازیانہ جس سے گوشت کے ٹکڑے اڑ جائیں، یا کھال پھٹ کر اندر تک زخم پڑجائے، قرآن کے خلاف ہے۔ مار کے لیے خواہ کوڑا استعمال کیا جائے یا بید، دونوں صورتوں میں وہ اوسط درجے کا ہونا چاہیے۔ نہ بہت موٹا اور سخت۔ اور نہ بہت پتلا اور نرم۔ مؤطّا میں امام مالک کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ضرب تازیانہ کے لیے کوڑا طلب کیا اور وہ کثرت استعمال سے بہت کمزور ہوچکا تھا۔ آپ نے فرمایا فوق ھٰذا (اس سے زیادہ سخت لاؤ)۔ پھر ایک نیا کوڑا لایا گیا، جو ابھی استعمال سے نرم نہیں پڑا تھا۔ آپ نے فرمایا دونوں کے درمیان۔ پھر ایسا کوڑا لایا گیا جو سواری میں استعمال ہوچکا تھا۔ اس سے آپ نے ضرب لگوائی۔ اسی مضمون سے ملتی جلتی روایت ابو عثمان النہدی نے حضرت عمر کے متعلق بھی بیان کی ہے کہ وہ اوسط درجے کا کوڑا استعمال کرتے تھے۔ (احکام القرآن جصاص۔ ج 3۔ ص 322)۔ گرہ لگا ہوا کوڑا یا دو شاخہ سہ شاخہ کوڑا بھی استعمال کرنا ممنوع ہے۔ مار بھی اوسط درجے کی ہونی چاہیے۔ حضرت عمر مارنے والے کو ہدایت کرتے تھے کہ لا ترفع (یا لا تخرج) ابطک۔ " اس طرح مار کہ تیری بغل نہ کھلے "۔ یعنی پوری طاقت سے ہاتھ کو تان کر نہ مار (احکام القرآن ابن عربی۔ ج 2 ص 84۔ احکام القرآن جصاص، ج 3۔ ص 322)۔ تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ ضرب مبرح نہیں ہونی چاہیے، یعنی زخم ڈال دینے والی۔ ایک ہی جگہ نہیں مارنا چاہیے بلکہ تمام جسم پر مار کو پھیلا دینا چاہیے۔ صرف منہ اور شرم گاہ کو (اور حنفیہ کے نزدیک سر کو بھی) بچا لینا چاہیے، باقی ہر عضو پر کچھ نہ کچھ مار پڑنی چاہیے۔ حضرت علی نے ایک شخص کو کوڑے لگواتے وقت فرمایا " ہر عضو کو اس کا حق دے اور صرف منہ اور شرمگاہ کو بچا لے "۔ دوسری روایت میں ہے " صرف سر اور شرمگاہ کو بچالے " (احکام القرآن جصاص، ج 3۔ ص 321)۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے اذا ضرب احدکم فلیتق الوجہ۔ " جب تم میں سے کوئی مارے تو منہ پر نہ مارے " (ابو داؤد)۔ مرد کو کھڑا کر کے مارنا چاہیے اور عورت کو بٹھا کر۔ امام ابوحنیفہ کے زمانے میں کوفے کے قاضی ابن ابی لیلی نے ایک عورت کو کھڑا کر کے پٹوایا۔ اس پر امام ابوحنیفہ نے سخت گرفت کی اور علانیہ ان کے فیصلے کو غلط ٹھہرایا (اس سے قانون توہین عدالت کے معاملے میں بھی امام صاحب کے مسلک پر روشنی پڑتی ہے)۔ ضرب تازیانہ کے وقت عورت اپنے پورے کپڑے پہنے رہے گی، بلکہ اس کے کپڑے اچھی طرح باندھ دیے جائیں گے تاکہ اس کا جسم کھل نہ جائے صرف موٹے کپڑے اتروا دیے جائیں گے۔ مرد کے معاملے میں اختلاف ہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں وہ صرف پاجامہ پہنے رہے گا، اور بعض کہتے ہیں کہ قمیض بھی نہ اتروایا جائے گا۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے ایک زانی کو سزائے تازیانہ کا حکم دیا اس نے کہا " اس گناہ گار جسم کو اچھی طرح مار کھانی چاہیے "، اور یہ کہہ کر وہ قمیص اتارنے لگا۔ حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا " اسے قمیص نہ اتارنے دو "۔ (احکام القرآن جصاص، ج 3۔ ص 322)۔ حضرت علی کے زمانے میں ایک شخص کو کوڑے لگوائے گئے اور وہ چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ سخت سردی اور سخت گرمی کے وقت مارنا ممنوع ہے۔ جاڑے میں گرم وقت اور گرمی میں ٹھنڈے وقت مارنے کا حکم ہے۔ باندھ کر مارنے کی بھی اجازت نہیں ہے، الا یہ کہ مجرم بھاگنے کی کوشش کرے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں لا یحل فی ھٰذہ الامۃ تجرید ولا مدّ۔ " اس امت میں ننگا کر کے اور ٹکٹکی پر باندھ کر مارنا حلال نہیں ہے "۔ فقہاء نے اس کو جائز رکھا ہے کہ روزانہ کم از کم بیس بیس کوڑے مارے جائیں۔ لیکن اولیٰ یہی ہے کہ بیک وقت پوری سزا دے دی جائے۔ مار کا کام اجڈ جلادوں سے نہیں لینا چاہیے بلکہ صاحب علم و بصیرت آدمیوں کو یہ خدمت انجام دینی چاہیے جو جانتے ہوں کہ شریعت کا تقاضا پورا کرنے کے لیے کس طرح مارنا مناسب ہے۔ ابن قیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ نبی ﷺ کے زمانے میں حضرت علی، حضرت زبیر، مقداد بن عمرو، محمد بن مسلمہ، عاصم بن ثابت اور ضحاک بن سفیان جیسے صلحاء و معززین سے جلادی کی خدمت لی جاتی تھی (ج 1۔ ص 44۔ 45)۔ اگر مجرم مریض ہو، اور اس کے صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو، یا بہت بوڑھا ہو تو سو شاخوں والی ایک ٹہنی، یا سو تیلیوں والی ایک جھاڑو لے کر صرف ایک دفعہ مار دینا چاہے تاکہ قانون کا تقاضا پورا کردیا جائے۔ نبی ﷺ کے زمانے میں ایک بوڑھا مریض زنا کے جرم میں پکڑا گیا تھا اور آپ نے اس کے لیے یہی سزا تجویز فرمائی تھی (احمد، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ)۔ حاملہ عورت کو سزائے تازیانہ دینی ہو تو وضع حمل کے بعد نفاس کا زمانہ گزر جانے تک انتظار کرنا ہوگا۔ اور رجم کرنا ہو تو جب تک اس کے بچے کا دودھ نہ چھوٹ جائے، سزا نہیں دی جاسکتی۔ اگر زنا شہادتوں سے ثابت ہو تو گواہ ضرب کی ابتدا کریں گے، اور اگر اقرار کی بنا پر سزا دی جا رہی ہو تو قاضی خود ابتدا کرے گا، تاکہ گواہ اپنی گواہی کو اور جج اپنے فیصلوں کو کھیل نہ سمجھ بیٹھیں۔ شراحہ کے مقدمے میں جب حضرت علی نے رجم کا فیصلہ کیا تو فرمایا " اگر اس کے جرم کا کوئی گواہ ہوتا تو اسی کو مار کی ابتدا کرنی چاہیے تھی، مگر اس کو اقرار کی بنا پر سزا دی جا رہی ہے اس لیے میں خود ابتدا کروں گا "۔ حنیفہ کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے۔ شافعیہ اس کو واجب نہیں مانتے، مگر سب کے نزدیک اولیٰ یہی ہے۔ ضرب تازیانہ کے قانون کی ان تفصیلات کو دیکھیے اور پھر ان لوگوں کی جرأت کی داد دیجیے جو اسے تو وحشیانہ سزا کہتے ہیں، مگر وہ سزائے تازیانہ ان کے نزدیک بڑی مہذب سزا ہے جو آج جیلوں میں دی جا رہی ہے۔ موجودہ قانون کی رو سے صرف عدالت ہی نہیں، جیل کا ایک معمولی سپرنٹنڈنٹ بھی ایک قیدی کو حکم عدولی یا گستاخی کے قصور میں 30 ضرب بید تک کی سزا دینے کا مجاز ہے۔ یہ بید لگانے کے لیے ایک آدمی خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ اس کی مشق کرتا رہتا ہے۔ اس غرض کے لیے بید بھی خاص طور پر بھگو بھگو کر تیار کیے جاتے ہیں تاکہ جسم کو چھری کی طرح کاٹ دیں۔ مجرم کو ننگا کر کے ٹکٹکی سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ تڑپ بھی نہ سکے۔ صرف ایک پتلا سا کپڑا اس کے ستر کو چھپانے کے لیے رہنے دیا جاتا ہے اور وہ ٹنکچر آیوڈین سے بھگو دیا جاتا ہے۔ جلاد دور سے بھاگتا ہوا آتا ہے اور پوری طاقت سے مارتا ہے ضرب ایک ہی مخصوص حصہ جسم (یعنی سرین) پر مسلسل لگائی جاتی ہے یہاں تک کہ گوشت قیمہ ہو کر اڑتا چلا جاتا ہے اور بسا اوقات ہڈی نظر آنے لگتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ طاقتور سے طاقتور آدمی بھی پورے تیس بید کھانے سے پہلے ہی بےہوش ہوجاتا ہے اور اس کے زخم بھرنے میں ایک مدت لگ جاتی ہے۔ اس " مہذب " سزا کو جو لوگ آج جیلوں میں خود نافذ کر رہے ہیں ان کا یہ منہ ہے کہ اسلام کی مقرر کی ہوئی سزائے تازیانہ کو " وحشیانہ " سزا کے نام سے یاد فرمائیں، پھر ان کی پولیس ثابت شدہ مجرموں کو نہیں بلکہ محض مشتبہ لوگوں کو تفتیش کی خاطر (خصوصاً سیاسی جرائم کے شبہات میں) جیسے جیسے عذاب دیتی ہے وہ آج کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ (24) رجم کی سزا میں جب مجرم مر جائے تو پھر اس سے پوری طرح مسلمانوں کا سا معاملہ کیا جائے گا۔ اس کی تجہیز و تکفین کی جائے گی۔ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس کو عزت کے ساتھ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ اس کے حق میں دعائے مغفرت کی جائے گی اور کسی کے لیے جائز نہ ہوگا کہ اس کا ذکر برائی کے ساتھ کرے۔ بخاری میں جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت ہے کہ جب رجم سے ماعز بن مالک کی موت واقع ہوگئی تو نبی ﷺ نے اس کو " خیر سے یاد فرمایا اور اس کی نماز جنازہ خود پڑھائی "۔ مسلم میں حضرت بریدہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اسْتغفروا لماعز بن مالک۔ لقد تاب توبۃ لو قسمت بین امۃ لوسعتھم، " ماعز بن مالک کے حق میں دعائے مغفرت کرو، اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ایک پوری امت پر تقسیم کردی جائے تو سب کے لیے کافی ہو "۔ اسی روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ غامدیہ جب رجم سے مر گئی تو حضور نے خود اس کی نماز جنازہ پڑھائی، اور جب حضرت خالد بن ولید نے اس کا ذکر برائی سے کیا تو آپ نے فرمایا مھلا یا خالد، فوالذی نفسی بیدہٖ لقد تابت توبۃ لو تابھا صاحب مکس لغفر لہ۔ " خالد اپنی زبان روکو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اس نے ایسی توبہ کی تھی کہ اگر ظالمانہ محصول وصول کرنے والا بھی وہ توبہ کرتا تو بخش دیا جاتا "۔ ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ماعز کے واقعہ کے بعد ایک روز حضور ﷺ راستے سے گزر رہے تھے۔ آپ نے دو شخصوں کو ماعز کا ذکر برائی سے کرتے سنا۔ چند قدم آگے جا کر ایک گدھے کی لاش پڑی نظر آئی۔ حضور ٹھہر گئے اور ان دونوں آدمیوں سے کہا " آپ حضرات اس میں سے کچھ نوش جان فرمائیں "۔ انہوں نے عرض کیا " یا نبی اللہ اسے کون کھا سکتا ہے "۔ آپ نے فرمایا " اپنے بھائی کی آبرو سے جو کچھ آپ ابھی تناول فرما رہے تھے وہ اسے کھانے کی بہ نسبت بد تر چیز تھی "۔ مسلم میں عمران بن حصین کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے غامدیہ کی نماز جنازہ کے موقع پر عرض کیا یا رسول اللہ، کیا اب اس زانیہ کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ؟ آپ نے فرمایا لقد تابت توبۃ لو قسمت بین اھل المدینہ لوسعتھم، " اس نے وہ توبہ کی ہے کہ اگر تمام اہل مدینہ پر تقسیم کردی جائے تو سب کے لیے کافی ہو "۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ایک شخص کو شراب نوشی کے جرم میں سزا دی جا رہی تھی۔ کسی کی زبان سے نکلا " خدا تجھے رسوا کرے "۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا " اس طرح نہ کہو، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو "۔ ابو داؤد میں اس پر اتنا اور اضافہ ہے کہ حضور نے فرمایا " بلکہ یوں کہو اللہمَّ اغفرلہ، اللہمَّ ارحمہ۔ " خدایا اسے معاف کر دے، خدایا اس پر رحم کر "۔ یہ ہے اسلام میں سزا کی اصل روح۔ اسلام کسی بڑے سے بڑے مجرم کو بھی دشمنی کے جذبے سے سزا نہیں دیتا بلکہ خیر خواہی کے جذبے سے دیتا ہے، اور جب سزا دے چکتا ہے تو پھر اسے رحمت و شفقت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ کم ظرفی صرف موجودہ تہذیب نے پیدا کی ہے کہ حکومت کی فوج یا پولیس جسے مار دے، اور کوئی عدالتی تحقیقات جس کے مارنے کو جائز ٹھہرا دے، اس کے متعلق یہ تک گوارا نہیں کیا جاتا کہ کوئی اس کا جنازہ اٹھائے یا کسی کی زبان سے اس کا ذکر خیر سنا جائے۔ اس پر اخلاقی جرأت (یہ موجودہ تہذیب میں ڈھٹائی کا مہذب نام ہے) کا یہ عالم ہے کہ دنیا کو رواداری کے وعظ سنائے جاتے ہیں۔ (25) محرمات سے زنا کے متعلق شریعت کا قانون تفہیم القرآن جلد اول صفحہ 336 پر، اور عمل قوم لوط کے متعلق شرعی فیصلہ تفہیم القرآن جلد دوم صفحہ 51۔ 54 پر بیان کیا جا چکا ہے۔ رہا جانور سے فعل بد، تو بعض فقہاء اس کو بھی زنا کے حکم میں شمار کرتے ہیں اور اس کے مرتکب کو حد زنا کا مستحق ٹھہراتے ہیں، مگر امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر امام مالک اور امام شافعی (رحمہم اللہ) کہتے ہیں کہ یہ زنا نہیں ہے اس لیے اس کا مرتکب تعزیر کا مستحق ہے نہ کہ حد زنا کا۔ تعزیر کے متعلق ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ اس کا فیصلہ قاضی کی رائے پر چھوڑا گیا ہے، یا مملکت کی مجلس شوریٰ ضرورت سمجھے تو اس کے لیے کوئی منا سب شکل خود تجویز کرسکتی ہے۔
Top