Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 50
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْ : وہ جو۔ جس نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن) عَلٰي عَبْدِهٖ : اپنے بندہ پر لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لِلْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کے لیے نَذِيْرَۨا : ڈرانے والا
نہایت متبرک ہے 1 وہ جس نے یہ فرقان 2 اپنے بندے پر نازل کیا 3 تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو 4
سورة الْفُرْقَان 1 اصل میں لفظ تَبَارَکَ استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ تو درکنار ایک فقرے میں بھی ادا ہونا مشکل ہے۔ اس کا مادہ ب ر ک ہے جس سے دو مصدر بَرَکَۃ اور بُرُوک نکلے ہیں۔ بَرَکۃ میں افزونی، فراوانی، کثرت اور زیادتی کا تصور ہے اور بُرُوک میں ثبات، بقاء اور لزوم کا تصور۔ پھر جب اس مصدر سے تَبَارَکَ کا صیغہ بنایا جاتا ہے تو باب تفاعُل کی خصوصیت، مبالغہ اور اظہار کمال، اس میں اور شامل ہوجاتی ہے اور اس کا مفہوم انتہائی فراوانی، بڑھتی اور چڑھتی افزونی، اور کمال درجے کی پائیداری ہوجاتا ہے۔ یہ لفظ مختلف مواقع پر مختلف حیثیتوں سے کسی چیز کی فراوانی کے لیے، یا اس کے ثبات و دوام کی کیفیت بیان کرنے کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاً کبھی اس سے مراد بلندی میں بہت بڑھ جانا ہوتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں تبارکت النخلۃ یعنی فلاں کھجور کا درخت بہت اونچا ہوگیا۔ اِصْمَعِی کہتا ہے کہ ایک بدو ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا تَبَارَکْتُ عَلَیْکُمْ۔ " میں تم سے اونچا ہوگیا ہوں "۔ کبھی اسے عظمت اور بزرگی میں بڑھ جانے کے لیے بولتے ہیں۔ کبھی اس کو فیض رسانی اور خیر اور بھلائی میں بڑھے ہوئے ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی اس سے پاکیزگی و تقدس کا کمال مراد ہوتا ہے۔ اور یہی کیفیت اس کے معنی ثبوت و لزوم کی بھی ہے۔ موقع و محل اور سیاق وسباق بتادیتا ہے کہ کس جگہ اس لفظ کا استعمال کس غرض کے لیے کیا گیا ہے۔ یہاں جو مضمون آگے چل کر بیان ہو رہا ہے اس کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کے لیے تَبَارَکَ ایک معنی میں نہیں، بہت سے معنوں میں استعمال ہوا ہے 1 بڑا محسن اور نہایت با خیر، اس لیے کہ اس نے اپنے بندے کو فرقان کی عظیم الشان نعمت سے نواز کر دنیا بھر کو خبردار کرنے کا انتظام فرمایا۔ 2 نہایت بزرگ و با عظمت، اس لیے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کی ہے۔ 3 نہایت مقدس و منزَّہ، اس لیے کہ اس کی ذات ہر شائبۂ شرک سے پاک ہے۔ نہ اس کا کوئی ہم جنس کہ ذات خداوندی میں اس کا نظیر و مثیل ہو، اور نہ اس کے لیے فنا و تغیر کہ اسے جا نشینی کے لیے بیٹے کی حاجت ہو۔ 4 نہایت بلندو برتر، اس لیے کہ بادشاہی ساری کی ساری اسی کی ہے اور کسی دوسرے کا یہ مرتبہ نہیں کہ اس کے اختیارات میں اس کا شریک ہو سکے۔ 5 کمال قدرت کے اعتبار سے برتر، اس لیے کہ وہ کائنات کی ہر چیز کو پیدا کرنے والا اور ہر شے کی تقدیر مقرر کرنے والا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، المومنون، حاشیہ 14۔ الفرقان، حاشیہ 19)۔ سورة الْفُرْقَان 2 یعنی قرآن مجید۔ فرقان مصدر ہے مادہر ق سے، جس کے معنی ہیں دو چیزوں کو الگ کرنا، یا ایک ہی چیز کے اجزاء کا الگ الگ ہونا۔ قرآن مجید کے لیے اس لفظ کا استعمال یا تو فارِق کے معنی میں ہوا ہے، یا مفروق کے معنی میں یا پھر اس سے مقصود مبالغہ ہے، یعنی فرق کرنے کے معاملے میں اس کا کمال اتنا بڑھا ہوا ہے کہ گویا وہ خود ہی فرق ہے۔ اگر اسے پہلے اور تیسرے معنی میں لیا جائے تو اس کا صحیح ترجمہ کسوٹی، اور فیصلہ کن چیز، اور معیار فیصلہ (Criterion) کے ہوں گے۔ اور اگر دوسرے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب الگ الگ اجزاء پر مشتمل، اور الگ الگ اوقات میں آنے والے اجزاء پر، مشتمل، چیز کے ہوں گے، قرآن مجید کو ان دونوں ہی اعتبارات سے " الفرقان " کہا گیا ہے۔ سورة الْفُرْقَان 3 اصل میں لفظ نَزَّلَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں بتدریج، تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنا۔ اس تمہیدی مضمون کی مناسبت آگے چل کر آیت 32 (رکوع 3) کے مطالعہ سے معلوم ہوگی جہاں کفار مکہ کے اس اعتراض پر گفتگو کی گئی ہے کہ " یہ قرآن پورا کا پورا ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا " ؟ سورة الْفُرْقَان 4 یعنی خبردار کرنے والا، متنبہ کرنے والا، غفلت اور گمراہی کے برے نتائج سے ڈرانے والا۔ اس سے مراد فرقان بھی ہوسکتا ہے، اور وہ " بندہ " بھی جس پر فرقان نازل کیا گیا۔ الفاظ ایسے جامع ہیں کہ دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں، اور حقیقت کے اعتبار سے چونکہ دونوں ایک ہیں، اور ایک ہی کام کے لیے بھیجے گئے ہیں، اس لیے کہنا چاہیے کہ دونوں ہی مراد ہیں۔ پھر یہ جو فرمایا کہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو، تو اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی دعوت اور محمد ﷺ کی رسالت کسی ایک ملک کے لیے نہیں، پوری دنیا کے لیے ہے، اور اپنے ہی زمانے کے لیے نہیں، آنے والے تمام زمانوں کے لیے ہے۔ یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ مثلاً فرمایا یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً ، " اے انسانو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں " (الاعراف، آیت 158)۔ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہ وَمَنْ بَلَغَ ، " میری طرف یہ قرآن بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو خبردار کروں اور جس جس کو بھی یہ پہنچے " (الانعام آیت 19) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّ نَذِیْراً ، " ہم نے تم کو سارے ہی انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے " (سبا آیت 28) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ الَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ، " اور ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے " (الانبیاء، آیت 107) اور اسی مضمون کو خوب کھول کھول کر نبی ﷺ نے احادیث میں بار بار بیان فرمایا ہے کہ بعثت الی الاحمر و الاسود، " میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں "۔ اور کان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ، " پہلے ایک نبی خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، اور میں عام طور پر تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں " (بخاری و مسلم) اور و ارسلت الی الخلق کافۃ و خُتِم بی النبیون، " میں ساری خلقت کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ختم کردیے گئے میری آمد پر انبیاء " (مسلم)۔
Top