Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 20
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ یَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ١ؕ وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً١ؕ اَتَصْبِرُوْنَ١ۚ وَ كَانَ رَبُّكَ بَصِیْرًا۠   ۧ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : بھیجے ہم نے قَبْلَكَ : تم سے پہلے مِنَ : سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع) اِلَّآ : مگر اِنَّهُمْ : وہ یقیناً لَيَاْكُلُوْنَ : البتہ کھاتے تھے الطَّعَامَ : کھانا وَيَمْشُوْنَ : اور چلتے پھرتے تھے فِي الْاَسْوَاقِ : بازاروں میں وَجَعَلْنَا : اور ہم نے کیا (بنایا) بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض کو (کسی کو) لِبَعْضٍ : بعض (دوسروں کے لیے) فِتْنَةً : آزمائش اَتَصْبِرُوْنَ : کیا تم صبرو کرو گے وَكَانَ : اور ہے رَبُّكَ : تمہارا رب بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے محمدؐ ، تم سے پہلے جو رسُول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ سب بھی کھانا کھانے والے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے۔ 29 دراصل ہم نے تم لوگوں کو ایک دُوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ 30 کیا تم صبر کرتے ہو؟ 31 تمہارا ربّ سب کچھ دیکھتا ہے۔ 32
سورة الْفُرْقَان 29 یہ جواب ہے کفار مکہ کی اس بات کا جو وہ کہتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس موقع پر یہ بات ذہن میں رہے کہ کفار مکہ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ (علیہم السلام) اور بہت سے دوسرے انبیاء سے نہ صرف واقف تھے، بلکہ ان کی رسالت بھی تسلیم کرتے تھے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ آخر محمد ﷺ کے بارے میں یہ نرالا اعتراض کیوں اٹھا رہے ہو ؟ پہلے کونسا نبی ایسا آیا ہے جو کھانا نہ کھاتا ہو اور بازاروں میں نہ چلتا پھرتا ہو ؟ اور تو اور، خود عیسیٰ بن مریم ؑ ، جن کو عیسائیوں نے خدا کا بیٹا بنا رکھا ہے (اور جن کا مجسمہ کفار مکہ نے بھی کعبہ میں رکھ چھوڑا تھا) انجیلوں کے اپنے بیان کے مطابق کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے۔ سورة الْفُرْقَان 30 یعنی رسول اور اہل ایمان کے لیے منکرین آزمائش ہیں اور منکرین کے لیے رسول اور اہل ایمان۔ منکرین نے ظلم و ستم اور جاہلانہ عداوت کی جو بھٹی گرم کر رکھی ہے وہی تو وہ ذریعہ ہے جس سے ثابت ہوگا کہ رسول اور اس کے صادق الایمان پیرو کھرا سونا ہیں۔ کھوٹ جس میں بھی ہوگی وہ اس بھٹی سے بخیریت نہ گزر سکے گا، اور اس طرح خالص اہل ایمان کا ایک چیدہ گروہ چھٹ کر نکل آئے گا جس کے مقابلے میں پھر دنیا کی کوئی طاقت نہ ٹھہر سکے گی۔ یہ بھٹی گرم نہ ہو تو ہر طرح کے کھوٹے اور کھرے آدمی نبی کے گرد جمع ہوجائیں گے، اور دین کی ابتدا ہی ایک خام جماعت سے ہوگی۔ دوسری طرف منکرین کے لیے بھی رسول اور اصحاب رسول ایک سخت آزمائش ہیں۔ ایک عام انسان کا اپنی ہی برادری کے درمیان سے یکایک نبی بنا کر اٹھا دیا جانا، اس کے پاس کوئی فوج فرّا اور مال و دولت نہ ہونا، اس کے ساتھ کلام الہٰی اور پاکیزہ سیرت کے سوا کوئی عجوبہ چیز نہ ہونا، اس کے ابتدائی پیروؤں میں زیادہ تر غریبوں، غلاموں اور نو عمر لوگوں کا شامل ہونا اور اللہ تعالیٰ کا ان چند مٹھی بھر انسانوں کو گویا بھیڑیوں کے درمیان بےسہارا چھوڑ دینا، یہی وہ چھلنی ہے جو غلط قسم کے آدمیوں کو دین کی طرف آنے سے روکتی ہے اور صرف ایسے ہی لوگوں کو چھان چھان کر آگے گزارتی ہے جو حق کو پہچاننے والے اور راستی کو ماننے والے ہوں۔ یہ چھلنی اگر نہ لگائی جاتی اور رسول بڑی شان و شوکت کے ساتھ آ کر تخت فرماں روائی پر جلوہ گر ہوتا، خزانوں کے منہ اس کے ماننے والوں کے لیے کھول دیے جاتے، اور سب سے پہلے بڑے بڑے رئیس آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے، تو آخر کونسا دنیا پرست اور بندہ غرض انسان اتنا احمق ہوسکتا تھا کہ اس پر ایمان لانے والوں میں شامل نہ ہوجاتا۔ اس صورت میں تو راستی پسند لوگ سب سے پیچھے رہ جاتے اور دنیا کے طالب بازی لے جاتے۔ سورة الْفُرْقَان 31 یعنی اس مصلحت کو سمجھ لینے کے بعد کیا اب تم کو صبر آگیا کہ آزمائش کی یہ حالت اس مقصد خیر کے لیے نہایت ضروری ہے جس کے لیے تم کام کر رہے ہو ؟ کیا اب تم وہ چوٹیں کھانے پر راضی ہو جو اس آزمائش کے دور میں لگنی ناگزیر ہیں ؟ سورة الْفُرْقَان 32 اس کے دو معنی ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ تمہارا رب جو کچھ کر رہا ہے کچھ دیکھ کر ہی کر رہا ہے، اس کی نگری اندھیر نگری نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جس خلوص اور راست بازی کے ساتھ اس کٹھن خدمت کو تم انجام دے رہے ہو وہ بھی تمہارے رب کی نگاہ میں ہے۔ اور تمہاری مساعی خیر کا مقابلہ جن زیادتیوں اور بےایمانیوں سے کیا جا رہا ہے وہ بھی اس سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے۔ لہٰذا پورا اطمینان رکھو کہ نہ تم اپنی خدمات کی قدر سے محروم رہو گے اور نہ وہ اپنی زیادتیوں کے وبال سے بچے رہ جائیں گے۔
Top