Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 74
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں وہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا : اے ہمارے رب عطا فرما ہمیں مِنْ : سے اَزْوَاجِنَا : ہماری بیویاں وَذُرِّيّٰتِنَا : اور ہماری اولاد قُرَّةَ اَعْيُنٍ : ٹھنڈک آنکھوں کی وَّاجْعَلْنَا : اور بنادے ہمیں لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کا اِمَامًا : امام (پیشوا)
جو دُعائیں مانگا کرتے ہیں کہ”اے ہمارے ربّ، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک 92 دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام 93 بنا“
سورة الْفُرْقَان 92 یعنی ان کو ایمان اور عمل صالح کی توفیق دے اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کر، کیونکہ ایک مومن کو بیوی بچوں کے حسن و جمال اور عیش و آرام سے نہیں بلکہ ان کی نیک خصالی سے ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے۔ اس کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز تکلیف دہ نہیں ہو سکتی کہ جو دنیا میں اس کو سب سے زیادہ پیارے ہیں انہیں دوزخ کا ایندھن بننے کے لیے تیار ہوتے دیکھے۔ ایسی صورت میں تو بیوی کا حسن اور بچوں کی جوانی و لیاقت اس کے لیے اور بھی زیادہ سوہان روح ہوگی، کیونکہ وہ ہر وقت اس رنج میں مبتلا رہے گا کہ یہ سب اپنی ان خوبیوں کے باوجود اللہ کے عذاب میں گرفتار ہونے والے ہیں۔ یہاں خاص طور پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ جس وقت یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ وقت وہ تھا جبکہ مکہ کے مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس کے محبوب ترین رشتہ دار کفر و جاہلیت میں مبتلا نہ ہوں۔ کوئی مرد ایمان لے آیا تھا تو اس کی بیوی ابھی کافر تھی۔ کوئی عورت ایمان لے آئی تھی تو اس کا شوہر ابھی کافر تھا۔ کوئی نوجوان ایمان لے آیا تھا تو اس کے ماں باپ اور بھائی بہن، سب کے سب کفر میں مبتلا تھے۔ اور کوئی باپ ایمان لے آیا تھا تو اس کے اپنے جوان جوان بچے کفر پر قائم تھے۔ اس حالت میں ہر مسلمان ایک شدید روحانی اذیت میں مبتلا تھا اور اس کے دل سے وہ دعا نکلتی تھی جس کی بہترین ترجمانی اس آیت میں کی گئی ہے۔ " آنکھوں کی ٹھنڈک " نے اس کیفیت کی تصویر کھینچ دی ہے کہ اپنے پیاروں کو کفر و جاہلیت میں مبتلا دیکھ کر ایک آدمی کو ایسی اذیت ہو رہی ہے جیسے اس کی آنکھیں آشوب چشم سے ابل آئی ہوں اور کھٹک سے سوئیاں سی چبھ رہی ہوں۔ اس سلسلہ کلام میں ان کی اس کیفیت کو دراصل یہ بتانے کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ وہ جس دین پر ایمان لائے ہیں پورے خلوص کے ساتھ لائے ہیں۔ ان کی حالت ان لوگوں کی سی نہیں ہے جن کے خاندان کے لوگ مختلف مذہبوں اور پارٹیوں میں شامل رہتے ہیں اور سب مطمئن رہتے ہیں کہ چلو، ہر بینک میں ہمارا کچھ نہ کچھ سرمایہ موجود ہے۔ سورة الْفُرْقَان 93 یعنی ہم تقویٰ اور طاعت میں سب سے بڑھ جائیں، بھلائی اور نیکی میں سب سے آگے نکل جائیں محض نیک ہی نہ ہوں بلکہ نیکوں کے پیشوا ہوں اور ہماری بدولت دنیا بھر میں نیکی پھیلے۔ اس چیز کا ذکر بھی یہاں دراصل یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مال و دولت اور شوکت و حشمت میں نہیں بلکہ نیکی و پرہیزگاری میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ہمارے زمانے میں کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اس آیت کو بھی امامت کی امیدواری اور ریاست کی طلب کے لیے دلیل جواز کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ " یا اللہ متقی لوگوں کو ہماری رعیت اور ہم کو ان کا حکمراں بنا دے "۔ اس سخن فہمی کی داد " امیدواروں " کے سوا اور کون دے سکتا ہے۔
Top