Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 196
وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَفِيْ : میں زُبُرِ : صحیفے الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (پیغمبر)
اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے۔ 122
سورة الشُّعَرَآء 122 یعنی یہ ذکر اور یہی تنزیل اور یہی الہٰی تعلیم سابق کتب آسمانی میں بھی موجود ہے۔ یہی خدائے واحد کی بندگی کا بلاوا، یہی آخرت کی زندگی کا عقیدہ، یہی انبیاء کی پیروی کا طریقہ ان سب میں بھی پیش کیا گیا ہے، سب کتابیں جو خدا کی طرف سے آئی ہیں شرک کی مذمت ہی کرتی ہیں، مادہ پرستانہ نظریہ حیات کو چھوڑ کر اسی بر حق نظریہ حیات کی طرف دعوت دیتی ہیں جس کی بنیاد خدا کے حضور انسان کی جواب دہی کے تصور پر ہے، اور انسان سے یہی مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی خود مختاری سے دست بردار ہو کر ان الہٰی احکام کی پیروی اختیار کرے جو انبیاء (علیہم السلام) لائے ہیں۔ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نرالی نہیں جو دنیا میں پہلی مرتبہ قرآن ہی پیش کر رہا ہو اور کوئی شخص یہ کہہ سکے تم وہ بات کر رہے ہو جو اگلوں پچھلوں میں سے کسی نے کبھی نہیں کی۔ یہ آیت منجملہ ان دلائل کے ہے جو امام ابوحنیفہ ؓ کی اس قدیم رائے کے حق میں پیش کیے جاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نماز میں قرآن کا ترجمہ پڑھ لے تو نماز ہوجاتی ہے، خواہ وہ شخص عربی میں قرآن پڑھنے کی قدرت رکھتا ہو نہ رکھتا ہو۔ بنائے استدلال علامہ ابوبکر جصاص کے الفاظ میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرما رہا ہے کہ قرآن پچھلی کتابوں میں بھی تھا، اور ظاہر ہے کہ ان کتابوں میں وہ عربی الفاظ کے ساتھ نہ تھا۔ لہٰذا کسی دوسری زبان میں اس کے مضامین کو نقل کردینا اسے قرآن ہونے سے خارج نہیں کردیتا (احکام القرآن، جلد سوم، صفحہ 429)۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بالکل ظاہر ہے۔ قرآن مجید ہو یا کوئی دوسری آسمانی کتاب، کسی کے نزول کی کیفیت بھی یہ نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے صرف معانی نبی کے دل پر القا کردیے ہوں اور نبی نے پھر انہیں اپنے الفاظ میں بیان کیا ہو۔ بلکہ ہر کتاب جس زبان میں بھی آئی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معنی اور لفظ دونوں کے ساتھ آئی ہے۔ اس لیے قرآن کی تعلیم جن پچھلی کتابوں میں تھی، انسانی الفاظ میں نہیں، خدائی الفاظ ہی میں تھی، اور ان میں سے کسی کے ترجمہ کو بھی کتاب اللہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اصل کا قائم مقام ٹھہرایا جاسکے۔ رہا قرآن تو اس کے متعلق بار بار بصراحت فرمایا گیا ہے کہ وہ لفظاً لفظاً عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰناً عَرَبِیًّا، (یوسف۔ آیت 2) وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْماً عَرَبِیًّا، (الرعد۔ آیت 37)۔ قُرْاٰناً عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ ، (الزمر۔ آیت 28)۔ اور خود اسی آیت زیر بحث سے پہلے متصلاً فرمایا جا چکا ہے کہ روح الامین اسے زبان عربی میں لے کر اترا ہے۔ اب اس کے متعلق یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اس کا کوئی ترجمہ جو کسی انسان نے دوسری زبان میں کیا ہو وہ بھی قرآن ہی ہوگا اور اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے الفاظ کے قائم مقام ہوں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ استدلال کی اس کمزوری کو بعد میں خود امام ممدوح نے ہی محسوس فرما لیا تھا، چناچہ معتبر روایات سے یہ بات نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے اس مسئلے میں اپنی رائے سے رجوع کر کے امام ابو یوسف اور امام محمد کی رائے قبول کرلی تھی، یعنی یہ کہ جو شخص عربی زبان میں قرأت پر قادر نہ ہو وہ اس وقت تک نماز میں قرآن کا ترجمہ پڑھ سکتا ہے جب تک اس کی زبان عربی الفاظ کے تلفظ کے قابل نہ ہوجائے، لیکن جو شخص عربی میں قرآن پڑھ سکتا ہو وہ اگر قرآن کا ترجمہ پڑھے گا تو اس کی نماز نہ ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ صاحبین نے یہ رعایت دراصل ان عجمی نو مسلموں کے لیے تجویز کی تھی جو اسلام قبول کرتے ہی فوراً عربی زبان میں نماز ادا کرنے کے قابل نہ ہو سکتے تھے۔ اور اس میں بنائے استدلال یہ نہ تھی کہ قرآن کا ترجمہ بھی قرآن ہے، بلکہ ان کا استدلال یہ تھا کہ جس طرح اشارے سے رکوع و سجود کرنا اس شخص کے لیے جائز ہے جو رکوع اور سجدہ کرنے سے عاجز ہو، اسی طرح غیر عربی میں نماز پڑھنا اس شخص کے لیے جائز ہے جو عربی تلفظ پر قادر نہ ہو۔ اور علیٰ ہٰذا القیاس جس طرح عجز رفع ہوجانے کے بعد اشارے سے رکوع و سجود کرنے والے کی نماز نہ ہوگی اسی طرح قرآن کے تلفظ پر قادر ہوجانے کے بعد ترجمہ پڑھنے والے کی نماز بھی نہ ہوگی۔ (اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو مبسوط سَرَخْسی، جلد اول، صفحہ 37۔ فتح القدیر و شرح عنایہ علی الہدایہ جلد 1، صفحہ 190۔ 201
Top