Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 31
اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَ اْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ۠   ۧ
اَلَّا تَعْلُوْا : یہ کہ تم سرکشی نہ کرو عَلَيَّ : مجھ پر وَاْتُوْنِيْ : اور میرے پاس آؤ مُسْلِمِيْنَ : فرمانبردار ہو کر
مضمون یہ ہے کہ”میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہو کر میرے پاس حاضر ہو جاوٴ۔“37
سورة النمل 37 یعنی خط کی اہمیت کئی وجوہ سے ہے، ایک یہ کہ وہ عجیب غیر معمولی طریقے سے آیا ہے، بجائے اس کے کہ کوئی سفارت اسے لاکر دیتی، ایک پرندے نے اسے لاکر مجھ پر ٹپکا دیا ہے، دوسرے یہ کہ وہ فلسطین و شام کے عظیم فرمانروا سلیمان کی جانب سے ہے، تیسرے یہ کہ اسے اللہ رحمن و رحیم کے نام سے شروع کیا گیا ہے، حالانکہ دنیا میں کہیں کسی سلطنت کے مراسلوں میں یہ طریقہ استعمال نہیں کیا جاتا، پھر سب دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف خدائے بزرگ و برتر کے نام پر خط لکھنا بھی ہماری دنیا میں ایک غیر معمولی بات ہے، ان سب باتوں کے ساتھ یہ امر اس کی اہمیت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے کہ اس میں بالکل صاف صاف ہم کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ ہم سرکشی چھوڑ کر اطاعت اختیار کرلیں اور تابع فرمان بن کر یا مسلمان ہو کر سلیمان کے آگے حاضر ہوجائیں۔ " مسلم " ہو کر حاضر ہونے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ مطیع بن کر حاضر ہوجاؤ، دوسرے یہ کہ دین اسلام قبول کر کے حاضر ہوجاؤ، پہلا مفہوم حضرت سلیمان کی شان فرماں روائی سے مطابقت رکھتا ہے اور دوسرا مفہوم ان کی شان پیغمبری سے۔ غالبا یہ جامع لفظ اسی لیے استعمال کیا گیا ہے کہ خط میں یہ دونوں مقاصد شامل تھے۔ اسلام کی طرف سے خود مختار قوموں اور حکومتوں کو ہمیشہ یہی دعوت دی گئی ہے کہ یا تو دین حق قبول کرو اور ہمارے ساتھ نظام اسلامی میں برابر کے حصہ دار بن جاؤ، یا پھر اپنی سیاسی خود مختاری سے دست بردار ہو کر اسلامی نظام کی ماتحتی قبول کرلو اور سیدھے ہاتھ سے جزیہ دو۔
Top