Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 39
قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ١ۚ وَ اِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ
قَالَ : کہا عِفْرِيْتٌ : ایک قوی ہیکل مِّنَ الْجِنِّ : جنات سے اَنَا اٰتِيْكَ : میں آپ کے پاس لے آؤں گا بِهٖ : اس کو قَبْلَ : اس سے قبل اَنْ تَقُوْمَ : کہ آپ کھڑے ہوں مِنْ مَّقَامِكَ : اپنی جگہ سے وَاِنِّىْ : اور بیشک میں عَلَيْهِ : اس پر لَقَوِيٌّ : البتہ قوت والا اَمِيْنٌ : امانت دار
جِنوں میں سے ایک قوی ہیکل نے عرض کیا میں اسے حاضر کر دوں گا قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اُٹھیں۔45 میں اس کی طاقت رکھتا ہوں اور امانتدار ہوں۔“46
سورة النمل 45 اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضرت سلیمان ؑ کے پاس جو جن تھے وہ آیا جو مودہ زمانے کے محض عقل پرست مفسرین کی تاویلوں کے مطابق بنی نوع انسان میں سے تھے یا عرف عام کے مطابق اسی پوشیدہ مخلوق میں سے جو جن کے نام سے معروف ہے۔ ظاہر ہے کہ حضرت سلیمان کے دربار کی نشست زیادہ سے زیادہ تین چار گھنٹے کی ہوگی، اور بیت المقدس سے سبا کے پایہ تخت مارب کا فاصلہ پرندے کی اڑان کے لحاظ سے بھی کم از کم ڈیڑھ ہزار میل کا تھا۔ اتنے فاصلہ سے ایک ملکہ کا عظیم الشان تخت اتنی کم مدت میں اٹھا لانا کسی انسان کا کام نہیں ہوسکتا تھا، خوہ وہ عمالقہ میں سے کتنا ہی موٹا تازہ آدمی کیوں نہ ہو، یہ کام تو آج کل کا جٹ طیارہ بھی انجام دینے پر قادر نہیں ہے۔ مسئلہ اتنا ہی نہیں ہے کہ تخت کہیں جنگل میں رکھا ہو اور اسے اٹھا لایا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تخت ایک ملکہ کے محل میں تھا جس پر یقینا پہرہ دار متعین ہوں گے اور وہ ملکہ کی غیر موجوگی میں ضرور محفوظ جگہ رکھا گیا ہوگا، انسان جاکر اٹھا لانا چاہتا تو اس کے ساتھ ایک چھاپہ مار دستہ ہونا چاہیے تھا کہ لڑ بھڑا کر اسے پہرہ داروں سے چھین لائے۔ یہ سب کچھ آخر دربار برخاست ہونے سے پہلے کیسے ہوسکتا تھا۔ اس چیز کا تصور اگر کیا جاسکتا ہے تو ایک حقیقی جن ہی کے بارے میں کیا جاسکتا ہے۔ سورة النمل 46 یعنی آپ مجھ پر یہ بھروسا کرسکتے ہیں کہ میں اسے خود اڑا نہ لے جاؤں گا، یا اس میں سے کوئی قیمتی چیز نہ چرا لوں گا۔
Top