Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 38
قَالَ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَیُّكُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ
قَالَ : اس (سلیمان) نے کہا يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اَيُّكُمْ : تم میں سے کون يَاْتِيْنِيْ : میری پاس لائے گا بِعَرْشِهَا : اس کا تخت قَبْلَ : اس سے قبل اَنْ : کہ يَّاْتُوْنِيْ : وہ آئیں میرے پاس مُسْلِمِيْنَ : فرمانبردار ہو کر
43سلیمانؑ نے کہا”اے اہلِ دربار، تم میں سےکون اس کا تخت میرے پاس لاتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ مطیع ہو کر میرے پاس حاضر ہوں؟44
سورة النمل 43 بیچ میں یہ قصہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ سفارت ملکہ کا ہدیہ واپس لیکر پہنچی اور جو کچھ اس نے دیکھا اور سنا تھا وہ عرض کردیا، ملکہ نے اس سے حضرت سلیمان کے جو حالات سنے ان کی بنا پر اس نے یہی مناسب سمجھا کہ خود ان کی ملاقات کے لیے بیت المقدس جائے، چناچہ وہ خدم و حشم او شاہی ساز و سامان کے ساتھ سبا سے فلسطین کی طرف روانہ ہوئی اور اس نے دربار سلیمانی میں اطلاع بھیج دی کہ میں آپ کی دعوت خود آپ کی زبان سے سننے اور بالمشافہ گفتگو کرنے کے لیے حاضر ہورہی ہوں، ان تفصیلات کو چھوڑ کر اب اس وقت کا قصہ بیان کیا جارہا ہے جب ملکہ بیت المقدس کے قریب پہنچ گئی تھی اور ایک دو ہی دن میں حاضر ہونے والی تھی۔ سورة النمل 44 یعنی وہی تخت جس کے متعلق ہدہد نے بتایا تھا کہ " اس کا تخت بڑا عظیم الشان ہے " بعض مفسرین نے غضب کیا ہے کہ ملکہ کے آنے سے پہلے اس کا تخت منگوانے کی وجہ یہ قرار دی ہے کہ حضرت سلیمان اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، انہیں اندیشہ ہوا کہ اگر ملکہ مسلمان ہوگئی تو پھر اس کے مال پر اس کی مرضی کے بغیر قبضہ کرلینا حرام ہوجائے گا، اس لیے انہوں نے اس کے آنے سے پہلے تخت منگا لینے کی جلدی کی، کیونکہ اس وقت ملکہ کا مال مباح تھا، استغفر اللہ، ایک نبی کی نیت کے متعلق یہ تصور بڑا عجیب ہے، آخر یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ حضرت سلیمان تبلیغ کے ساتھ ساتھ ملکہ اور اس کے درباریوں کو ایک معجزہ بھی دکھانا چاہتے تھے تاکہ اسے معلوم ہو کہ اللہ رب العالمین اپنے انبیاء کو کیسی غیر معمولی قدرتیں عطا فرماتا ہے اور اسے یقین آجائے کہ حضرت سلیمان واقعی اللہ کے نبی ہیں، اس سے بھی کچھ زیادہ غضب بعض جدید مفسرین نے کیا ہے۔ وہ آیت کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ " تم میں سے کون ہے جو ملکہ کے لیے ایک تخت مجھے لادے " حالانکہ قرآن یاتینی بعرش لھا نہیں بلکہ بعرشھا کہہ رہا ہے جس کے معنی " اس کا تخت " ہیں نہ کہ " اس کے لیے ایک تخت " یہ بات صرف اس لیے بنائی گئی ہے کہ قرآن کے اس بیان سے کسی طرح پیچھا چھڑایا جائے کہ حضرت سلیمان اس ملکہ ہی کا تخت یمن سے بیت المقدس اٹھوا منگانا چاہتے تھے اور وہ بھی اسی طرح کہ ملکہ کے پہنچنے سے پہلے پہلے وہ آجائے۔
Top