Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 36
فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَّ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَهُمْ : آیا ان کے پاس مُّوْسٰي : موسیٰ بِاٰيٰتِنَا : ہماری نشانیوں کے ساتھ بَيِّنٰتٍ : کھلی۔ واضح قَالُوْا : وہ بولے مَا هٰذَآ : نہیں ہے یہ اِلَّا : مگر سِحْرٌ : ایک جادو مُّفْتَرًى : افترا کیا ہوا وَّ : اور مَا سَمِعْنَا : نہیں سنا ہے ہم نے بِهٰذَا : یہ۔ ایسی بات فِيْٓ : میں اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِيْنَ : اپنے اگلے باپ دادا
پھر جب موسیٰؑ اُن لوگوں کے پاس ہماری کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر پہنچا تو اُنہوں نے کہا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر بناوٹی جادُو۔49 اور یہ باتیں تو ہم نے اپنے باپ دادا کے زمانے میں کبھی سُنی ہی نہیں۔50
سورة القصص 49 اصل الفاظ ہیں سِحْرٌ مُّفْتَرًى " افترا کیا ہوا جادو "۔ اس افترا کو جھوٹ کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ لاٹھی کا اژدھا بننا اور ہاتھ کا چمک اٹھنا، نفس شے میں حقیقی تغیر نہیں ہے بلکہ محض ایک نمائشی شعبدہ ہے جسے یہ شخص معجزہ کہہ کر ہمیں دھوکا دے رہا ہے۔ اور اگر اسے بناوٹ کے معنی میں لیا جائے تو مراد یہ ہوگی کہ یہ شخص کسی کرتب سے ایک ایسی چیز بنا لایا ہے جو دیکھنے میں لاٹھی معلوم ہوتی ہے مگر جب یہ اسے پھینک دیتا ہے تو سانپ نظر آنے لگتی ہے، اور اپنے ہاتھ پر بھی اس نے کوئی ایسی چیز مل لی ہے کہ اس کی بغل سے نکلنے کے بعد وہ یکایک چمک اٹھتا ہے، یہ مصنوعی طلسم اس نے خود تیار کیا ہے اور ہمیں یقین یہ دلا رہا ہے کہ یہ معجزے ہیں جو خدا نے اسے عطا کیے ہیں۔ سورة القصص اشارہ ہے ان باتوں کی طرف جو تبلیغ رسالت کے سلسلے میں حضرت موسیٰ نے پیش کی تھیں، قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان باتوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ النازعات میں ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس سے کہا فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى، وَاَهْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى۔ " کیا تو پاکیزہ روش اختیار کرنے پر آمادہ ہے ؟ اور میں تجھے تیرے رب کی راہ بتاؤں تو خشیت اختیار کرے گا "۔ سورة طہ میں ہے کہ قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ ۭ وَالسَّلٰمُ عَلٰي مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى، اِنَّا قَدْ اُوْحِيَ اِلَيْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰي مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى۔ " ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لائے ہیں، اور سلامتی ہے اس کے لیے جو راہ راست کی پیروی کرے اور ہم پر وحی کی گئی ہے کہ سزا ہے اس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے " اور اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ۔ " ہم تیرے رب کے پیغمبر ہیں، تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دے "۔ انہی باتوں کے متعلق فرعون نے کہا کہ ہمارے باپ دادا نے کبھی یہ نہیں سنا تھا کہ فرعون مصر سے اوپر بھی کوئی ایسی مقتدر ہستی ہے جو اس کو حکم دینے کی مجاز ہو، جو اسے سزا دے سکتی ہو، جو اسے ہدایات دینے کے لیے کسی آدمی کو اس کے دربار میں بھیجے، اور جس سے ڈرنے کے لیے مصر کے بادشاہ سے کہا جائے۔ یہ تو نرالی باتیں ہیں جو آج ہم ایک شخص کی زبان سے سن رہے ہیں۔
Top