Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 59
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ
: اے نبی
قُلْ
: فرمادیں
لِّاَزْوَاجِكَ
: اپنی بیبیوں کو
وَبَنٰتِكَ
: اور بیٹیوں کو
وَنِسَآءِ
: اور عورتوں کو
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں
يُدْنِيْنَ
: ڈال لیا کریں
عَلَيْهِنَّ
: اپنے اوپر
مِنْ
: سے
جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ
: اپنی چادریں
ذٰلِكَ
: یہ
اَدْنٰٓى
: قریب تر
اَنْ
: کہ
يُّعْرَفْنَ
: ان کی پہچان ہوجائے
فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ
: تو انہیں نہ ستایا جائے
وَكَانَ اللّٰهُ
: اور اللہ ہے
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
رَّحِيْمًا
: مہربان
اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں
110
یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں
111
اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے
112
سورة الْاَحْزَاب
110
اصل الفاظ ہیں یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ۔ جلباب عربی زبان میں بڑی چادر کو کہتے ہیں۔ اور اِدْنَاء کے اصل معنی قریب کرنے اور لپیٹ لینے کے ہیں، مگر جب اس کے ساتھ علیٰ کا صلہ آئے تو اس میں اِرْخَاء، یعنی اوپر سے لٹکا لینے کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ موجودہ زمانے کے بعض مترجمین و مفسرین مغربی مذاق سے مغلوب ہو کر اس لفظ کا ترجمہ صرف " لپیٹ لینا " کرتے ہیں تاکہ کسی طرح چہرہ چھپانے کے حکم سے بچ نکلا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا مقصود اگر وہی ہوتا جو یہ حضرات بیان کرنا چاہتے ہیں تو وہ یُدْنِیْنَ اِلَیْھِنَّ فرماتا۔ جو شخص بھی عربی زبان جانتا ہو کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ کے معنی محض لپیٹ لینے کے ہو سکتے ہیں۔ مزید براں مِنْ جَلَا بِیْبِھِنّ کے الفاظ یہ معنی لینے میں اور زیادہ مانع ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہاں مِن تبعیض کے لیے ہے، یعنی چادر کا ایک حصہ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ لپیٹی جائے گی تو پوری چادر لپیٹی جائے گی نہ کہ اس کا محض ایک حصہّ۔ اس لیے آیت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر ان کا ایک حصہ، یا ان کا پلو اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں، جسے عرف عام میں گھونگھٹ ڈالنا کہتے ہیں۔ یہی معنی عہد رسالت سے قریب ترین زمانے کے اکابر مفسرین بیان کرتے ہیں۔ ابن جریر اور ابن المنذر کی روایت ہے کہ محمد بن سیرین ؒ نے حضرت عُبَیدۃ السّلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا۔ (یہ حضرت عبیدہ نبی ﷺ کے زمانے میں مسلمان ہوچکے تھے مگر حاضر خدمت نہ ہو سکے تھے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں مدینہ آئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ انہیں فقہ اور قضا میں قاضی شریح کا ہم پلہ مانا جاتا تھا)۔ انہوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھا کہ پورا سر اور پیشانی اور پورا منہ ڈھانک کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔ ابن عباس بھی قریب قریب یہی تفسیر کرتے ہیں۔ ان کے جو اقوال ابن جریر۔ ابن ابی حاتم اور ابن مَرْدُوْیہَ نے نقل کیے ہیں ان میں وہ کہتے ہیں " اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے نکلیں تو اپنی چادروں کے پلو اوپر سے ڈال کر اپنا منہ چھپا لیں اور صرف آنکھیں کھلی رکھیں۔ " یہی تفسیر قتادہ اور سُدِّی نے بھی اس آیت کی بیان کی ہے۔ عہد صحابہ وتابعین کے بعد جتنے بڑے بڑے مفسرین تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انہوں نے بالا تفاق اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ امام ابن جریر طَبَرِی کہتے ہیں " یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ، یعنی شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوئے ہوں، بلکہ انہیں چاہیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے۔ " (جامع البیان جلد
22
۔ ص
33
) علامہ ابوبکر جصاص کہتے ہیں " یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جوان عورت کو اجنبیوں سے اپنا چہرہ چھپانے کا حکم ہے اور اسے گھر سے نکلتے وقت ستر اور عفت مآبی کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ مشتبہ سیرت و کردار کے لوگ اسے دیکھ کر کسی طمع میں مبتلا نہ ہوں۔ " (احکام القرآن، جلد
3
، صفحہ
458
) علامہ زَمَخْشَری کہتے ہیں " یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ، یعنی وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں اور اس سے اپنے چہرے اور اپنے اطراف کو اچھی طرح ڈھانک لیں۔ " (الکشاف۔ جلد
2
، ص
221
) علامہ نظام الدین نیشاپوری کہتے ہیں یدنین علیھن من جلا بیبھنّ ، یعنی اپنے اوپر چادر کا ایک حصہ لٹکا لیں۔ اس طرح عورتوں کو سر اور چہرہ ڈھانکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ " (غرائب القرآن جلد
22
، ص
32
) امام رازی کہتے ہیں " اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ بدکار عورتیں نہیں ہیں۔ کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے، اس سے کوئی شخص یہ توقع نہیں کرسکتا کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولنے پر راضی ہوگی۔ اس طرح ہر شخص جان لے گا کہ یہ باپردہ عورتیں ہیں، اس سے زنا کی امید نہیں کی جاسکتی۔ " (تفسیر کبیر، جلد
6
، ص
591
) ضمناً ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ اس سے نبی ﷺ کی کئی بیٹیاں ثابت ہوتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے " اے نبی، اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے کہو۔ " یہ الفاظ ان لوگوں کے قول کی قطعی تردید کردیتے ہیں جو خدا سے بےخوف ہو کر بےتکلف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ تھیں اور باقی صاحبزادیاں حضور ﷺ کی اپنی صلبی بیٹیاں نہ تھیں بلکہ گیلڑ تھیں۔ یہ لوگ تعصب میں اندھے ہو کر یہ بھی نہیں سوچتے کہ اولاد رسول ﷺ کے نسب سے انکار کر کے وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اس کی کیسی سخت جواب دہی انہیں آخرت میں کرنی ہوگی۔ تمام معتبر روایات اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے حضور ﷺ کی صرف ایک بیٹی حضرت فاطمہ ہی نہ تھیں بلکہ تین اور بیٹیاں بھی تھیں۔ حضور ﷺ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق حضرت خدیجہ سے حضور ﷺ کے نکاح کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں " ابراہیم ؑ کے سوا نبی ﷺ کی تمام اولاد انہی کے بطن سے پیدا ہوئی اور ان کے نام یہ ہیں۔ قاسم، اور طاہر و طیب، اور زینب، اور رقیَّہ، اور امّ کلثوم اور فاطمہ " (سیرت ابن ہشام، جلد اول۔ ص
302
) مشہور ماہر علم انساب ہشام بن محمد بن السائب کلبی کا بیان ہے کہ " مکہ میں نبوت سے قبل نبی ﷺ کے ہاں سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے، پھر زینب، پھر رقیہ، پھر اُمِ کلثوم (طبقات ابن سعد، جلد اول، ص
133
)۔ ابن حزْم نے جوامع السیرۃ میں لکھا ہے کہ حضرت خدیجہ کے بطن سے حضور ﷺ کی چار لڑکیاں تھیں، سب سے بڑی حضرت زینب ان سے چھوٹی رقیّہ، ان سے چھوٹی فاطمہ، اور ان سے چھوٹی ام کلثوم (ص
38
۔
39
)۔ طَبَری، ابن سعد، ابو جعفر محمد بن حبیب صاحب کتاب المجرَّ اور ابن عبد البر صاحب کتاب الاستیعاب، مستند حوالوں سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ سے پہلے حضرت خدیجہ کے دو شوہر گزر چکے تھے۔ ایک ابو ھالہ تمیمی جس سے ان کے ہاں ہند بن ابو ہالہ پیدا ہوئے۔ دوسرے عتیق بن عائذ مخزومی جس سے ان کے ہاں ایک لڑکی ہند نامی پیدا ہوئی۔ اس کے بعد ان کا نکاح حضور ﷺ سے ہوا اور تمام علمائے انساب متفق ہیں کہ آپ ﷺ کی صلب سے ان کے ہاں وہ چاروں صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام اوپر مذکور ہوئے ہیں (ملاحظہ ہو طبری، جلد
2
، ص
411
۔ طبقات ابن سعد، جلد
8
، ص
41
تا
16
۔ کتاب المجرَّ ص
78
،
79
،
452
۔ الاستیعاب جلد
2
، ص
718
) ان تمام بیانات کو قرآن مجید کی یہ تصریح قطعی الثبوت بند کردیتی ہے کہ حضور ﷺ کی ایک ہی صاحبزادی نہ تھیں بلکہ کئی صاحبزادیاں تھیں۔ سورة الْاَحْزَاب
111
" پہچان لی جائیں " سے مراد یہ ہے کہ ان کو اس سادہ اور حیا دار لباس میں دیکھ کر ہر دیکھنے والا جان لے کہ وہ شریف اور با عصمت عورتیں ہیں، آوارہ اور کھلاڑی نہیں ہیں کہ کوئی بد کردار انسان ان سے اپنے دل کی تمنا پوری کرنے کی امید کرسکے۔ نہ " ستائی جائیں " سے مراد یہ ہے کہ ان کو نہ چھیڑا جائے، ان سے تعرض نہ کیا جائے۔ اس مقام پر ذرا ٹھہر کر یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ قرآن کا یہ حکم، اور وہ مقصد حکم جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کردیا ہے، اسلامی قانون معاشرت کی کیا روح ظاہر کر رہا ہے۔ اس سے پہلے سورة نور، آیت
31
میں یہ ہدایت گزر چکی ہے کہ عورتیں اپنی آرائش و زیبائش کو فلاں فلاں قسم کے مردوں اور عورتوں کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں۔ " اور زمین پر پاؤں مارتے ہوئے بھی نہ چلیں کہ لوگوں کو اس زینت کا علم ہو جو انہوں نے چھپا رکھی ہے "۔ اس حکم کے ساتھ اگر سورة احزاب کی اس آیت کو ملا کر پڑھا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں چادر اوڑھنے کا جو حکم ارشاد ہوا ہے اس کا منشا اجنبیوں سے زینت چھپانا ہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ منشا اسی صورت میں پورا ہوسکتا ہے جبکہ چادر بجائے خود سادہ ہو، ورنہ ایک مزین اور جاذب نظر کپڑا لپیٹ لینے سے تو یہ منشا الٹا اور فوت ہوجائیگا۔ اس پر مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ صرف چادر لپیٹ کر زینت چھپانے ہی کا حکم نہیں دے رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ عورتیں چادر کا ایک حصہ اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں۔ کوئی معقول آدمی اس ارشاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتا کہ اس سے مقصود گھونگھٹ ڈالنا ہے تاکہ جسم و لباس کی زینت چھپنے کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی چھپ جائے۔ پھر اس حکم کی علت اللہ تعالیٰ خود یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ وہ مناسب ترین طریقہ ہے جس سے یہ مسلمان خواتین پہچان لی جائیں اور اذیت سے محفوظ رہیں گی۔ اس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ یہ ہدایت ان عورتوں کو دی جا رہی ہے جو مردوں کی نظر بازی اور ان کے شہوانی التفات سے لذت اندوز ہونے کے بجائے اس کو اپنے لیے تکلیف دہ اور اذیت ناک محسوس کرتی ہیں، جو معاشرے میں اپنے آپ کو آبرو باختہ شمع انجمن قسم کی عورتوں میں شمار نہیں کرانا چاہتیں، بلکہ عفت مآب چراغ خانہ ہونے کی حیثیت سے معروف ہونا چاہتے ہیں۔ ایسی شریف اور نیک خواتین سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم فی الواقع اس حیثیت سے معروف ہونا چاہ رہی ہو اور مردوں کی ہوسناک توجہات حقیقت میں تمہارے لیے موجب لذت نہیں بلکہ موجب اذیت ہیں تو پھر اس کے لیے مناسب طریقہ یہ نہیں ہے کہ تم خوب بناؤ سنگھار کر کے پہلی رات کی دلہن بن کر گھروں سے نکلو اور دیکھنے والوں کی حریص نگاہوں کے سامنے اپنا حسن اچھی طرح نکھار نکھار کر پیش کرو، بلکہ اس غرض کے لیے تو مناسب ترین طریقہ یہی ہوسکتا ہے کہ تم ایک سادہ چادر میں اپنے ساری آرائش و زیبائش کو چھپا کر نکلو، اپنے چہرے پر گھونگھٹ ڈالو اور اس طرح چلو کہ زیور کی جھنکار بھی لوگوں کو تمہاری طرف متوجہ نہ کرے۔ جو عورت باہر نکلنے سے پہلے بن ٹھن کر تیار ہوتی ہے اور اس وقت تک گھر سے قدم نہیں نکالتی جب تک سات سنگھار نہ کرلے، اس کی غرض اس کے سوا آخر اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ دنیا بھر کے مردوں کے لیے اپنے آپ کو جنت نگاہ بنانا چاہتی ہے اور انہیں خود دعوت التفات دیتی ہے۔ اس کے بعد اگر وہ یہ کہتی ہے کہ دیکھنے والوں کی بھوکی نگاہیں اسے تکلیف دیتی ہیں، اس کے بعد اگر اس کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ " معاشرے کی بیگم " اور " مقبول عام خاتون " ہونے کی حیثیت سے معروف نہیں ہونا چاہتی بلکہ عفت مآب گھر گرہستن بن کر رہنا چاہتی ہے تو یہ ایک فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ انسان کا قول اس کی نیت متعین نہیں کرتا بلکہ اس کی اصل نیت وہ ہوتی ہے جو اس کے عمل کی شکل اختیار کرتی ہے۔ لہٰذا جو عورت جاذب نظر بن کر غیر مردوں کے سامنے جاتی ہے اس کا یہ عمل خود ظاہر کردیتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا محرکات کام کر رہے ہیں۔ اسی لیے فتنے کے طالب لوگ اس سے وہی توقعات وابستہ کرتے ہیں جو ایسی عورت سے وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ قرآن عورتوں سے کہتا ہے کہ تم بیک وقت چراغ خانہ اور شمع انجمن نہیں بن سکتی ہو۔ چراغ خانہ بننا ہے تو ان طور طریقوں کو چھوڑ دو جو شمع انجمن بننے کے لیے موزوں ہیں۔ اور وہ طرز زندگی اختیار کرو جو چراغ خانہ بننے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا اس کے خلاف، اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطۂ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے، بہرحال اگر وہ تعبیر کی بددیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کرسکتا۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف یہ مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے، جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کر کے کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے۔ سورة الْاَحْزَاب
112
یعنی پہلے جاہلیت کی حالت میں جو غلطیاں کی جاتی رہی ہیں اللہ اپنی مہربانی سے ان کو معاف کر دے گا، بشرطیکہ اب صاف صاف ہدایت مل جانے کے بعد تم اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلو اور جان بوجھ کر اس کی خلاف ورزی نہ کرو۔
Top