Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 60
لَئِنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا٤ۖۛۚ
لَئِنْ : اگر لَّمْ يَنْتَهِ : باز نہ آئے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : روگ وَّالْمُرْجِفُوْنَ : اور جھوٹی افواہیں اڑانے والے فِي : میں الْمَدِيْنَةِ : مدینہ لَنُغْرِيَنَّكَ : ہم ضرور تمہیں پیچے لگا دیں گے بِهِمْ : ان کے ثُمَّ : پھر لَا يُجَاوِرُوْنَكَ : تمہارے ہمسایہ نہ رہیں گے وہ فِيْهَآ : اس (شہر) میں اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند دن
اگر منافقین ، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے 113 ،  اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں 114،  اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے ، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے
سورة الْاَحْزَاب 113 " دل کی خرابی " سے مراد یہاں دو قسم کی خرابیاں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرنے کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کا بدخواہ ہو۔ دوسرے یہ کہ آدمی بدنیتی، آوارگی اور مجرمانہ ذہنیت میں مبتلا ہو اور اس کے ناپاک رجحانات اس کی حرکات و سکنات سے پھوٹے پڑتے ہوں۔ سورة الْاَحْزَاب 114 اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں میں گھبراہٹ پھیلانے اور ان کے حوصلے پست کرنے کے لیے آئے دن مدینے میں اس طرح کی خبریں اڑایا کرتے تھے کہ فلاں جگہ مسلمانوں کو بڑی زک پہنچی ہے اور فلاں جگہ مسلمانوں کے خلاف بڑی طاقت جمع ہو رہی ہے اور عنقریب مدینہ پر اچانک حملہ ہونے والا ہے۔ اس کے ساتھ ان کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا کہ وہ خاندان نبوت اور شرفائے مسلمین کی خانگی زندگی کے متعلق طرح طرح کے افسانے گھڑتے اور پھیلاتے تھے تاکہ اس سے عوام میں بدگمانیاں پیدا ہوں اور مسلمانوں کے اخلاقی اثر کو نقصان پہنچے۔
Top