Tafheem-ul-Quran - Faatir : 15
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اَنْتُمُ : تم الْفُقَرَآءُ : محتاج اِلَى اللّٰهِ ۚ : اللہ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہ الْغَنِيُّ : بےنیاز الْحَمِيْدُ : سزاوار حمد
لوگو، تم ہی اللہ کے محتاج ہو 36 اور اللہ تو غنی و حمید ہے۔ 37
سورة فَاطِر 36 یعنی اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ خدا تمہارا محتاج ہے، تم اسے خدا نہ مانو گے تو اس کی خدائی نہ چلے گی، اور تم اس کی بندگی و عبادت نہ کرو گے تو اس کا کوئی نقصان ہوجائے گا۔ نہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ تم اس کے محتاج ہو۔ تمہاری زندگی ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتی اگر وہ تمہیں زندہ نہ رکھے اور وہ اسباب تمہارے لیے فراہم نہ کرے جن کی بدولت تم دنیا میں زندہ رہتے ہو اور کام کرسکتے ہو۔ لہٰذا تمہیں اس کی اطاعت و عبادت اختیار کرنے کی جو تاکید کی جاتی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ خدا کو اس کی احتیاج ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اسی پر تمہاری اپنی دنیا اور آخرت کی فلاح کا انحصار ہے۔ ایسا نہ کرو گے تو اپنا ہی سب کچھ بگاڑ لو گے، خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے۔ سورة فَاطِر 37 " غنی " سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے، ہر ایک سے مستغنی اور بےنیاز ہے، کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے۔ اور " حمید " سے مراد یہ ہے کہ وہ آپ سے آپ محمود ہے، کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے مگر حمد (شکر اور تعریف) کا استحقاق اسی کو پہنچتا ہے۔ ان دونوں صفات کو ایک ساتھ اس لیے لایا گیا ہے کہ محض غنی تو وہ بھی ہوسکتا ہے جو اپنی دولت مندی سے کسی کو نفع نہ پہنچائے۔ اس صورت میں وہ غنی تو ہوگا مگر حمید نہ ہوگا۔ حمید وہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ وہ کسی سے خود تو کوئی فائدہ نہ اٹھائے مگر اپنی دولت کے خزانوں سے دوسروں کو ہر طرح کی نعمتیں عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ان دونوں صفات میں کامل ہے اس لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ محض غنی نہیں ہے بلکہ ایسا غنی ہے جسے ہر تعریف اور شکر کا استحقاق پہنچتا ہے کیونکہ وہ تمہاری اور تمام موجودات عالم کی حاجتیں پوری کر رہا ہے۔
Top