Tafheem-ul-Quran - Az-Zumar : 53
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اَسْرَفُوْا : زیادتی کی عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں لَا تَقْنَطُوْا : مایوس نہ ہو تم مِنْ : سے رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی رحمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَغْفِرُ : بخش دیتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ (جمع) جَمِيْعًا ۭ : سب اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : مہربان
(اے نبیؐ)کہہ دو کہ اے میرے بندو، 70 جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاوٴ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفورٌ رحیم ہے، 71
سورة الزُّمَر 70 بعض لوگوں نے ان الفاظ کی یہ عجیب تاویل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو خود " اے میرے بندو " کہہ کر لوگوں سے خطاب کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا سب انسان نبی ﷺ کے بندے ہیں۔ یہ درحقیقت ایک ایسی تاویل ہے جسے تاویل نہیں بلکہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف اور اللہ کے کلام کے ساتھ کھیل کہنا چاہیے۔ جاہل عقیدت مندوں کا کوئی گروہ تو اس نکتے کو سن کر جھوم اٹھے گا، لیکن یہ تاویل اگر صحیح ہو تو پھر پورا قرآن غلط ہوا جاتا ہے، کیونکہ قرآن تو از اول تا آخر انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ قرار دیتا ہے، اور اسکی ساری دعوت ہی یہ ہے کہ تم ایک اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ محمد ﷺ خود بندے تھے۔ ان کو اللہ نے رب نہیں بلکہ رسول بنا کر بھیجا تھا۔ اور اس لیے بھیجا تھا کہ خود بھی اسی کی بندگی کریں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی سکھائیں۔ آخر کسی صاحب عقل آدمی کے دماغ میں یہ بات کیسے سما سکتی ہے کہ مکہ معظمہ میں کفار قریش کے درمیان کھڑے ہو کر ایک روز محمد ﷺ نے یکایک یہ اعلان کردیا ہوگا کہ تم عبدالعزّیٰ اور عبد شمس کے بجائے دراصل عبد محمد ﷺ ہو، اعاذنا اللہ من ذالک۔ سورة الزُّمَر 71 یہ خطاب تمام انسانوں سے ہے، صرف اہل ایمان کو مخاطب قرار دینے کے لیے کوئی وزنی دلیل نہیں ہے۔ اور جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے، عام انسانوں کو مخاطب کر کے یہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بغیر توبہ وانابت کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے، بلکہ بعد والی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی وضاحت فرما دی ہے کہ گناہوں کی معافی کو صورت بندگی و اطاعت کی طرف پلٹ آنا اور اللہ کے نازل کیے ہوئے پیغام کی پیروی اختیار کرلینا ہے۔ دراصل یہ آیت ان لوگوں کے لیے پیغام امید لے کر آئی تھی جو جاہلیت میں قتل، زنا، چوری، ڈاکے اور ایسے ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے، اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف ہو سکیں گے۔ ان سے فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ، جو کچھ بھی تم کرچکے ہو اس کے بعد اب اگر اپنے رب کی اطاعت کی طرف پلٹ آؤ تو سب کچھ معاف ہوجائے گا۔ اس آیت کی تاویل ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور ابن زید نے بیان کی ہے (ابن جریر، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی)۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص 466 تا 468۔
Top