Jawahir-ul-Quran - Az-Zumar : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
1   صاف جواب2 ہے اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی، ان مشرکوں کو جن سے تمہارا عہد ہوا تھا
1: سورة توبہ۔ ربط : سورة انفال میں مشرکین سے جہاد کرنے کا اجمالاً حکم دیا گیا اور قوانین جہاد کی تعلیم دی گئی۔ نیز حکم صادر کیا گیا کہ اگر جہاد میں مسلمانوں کی فتح ہوجائے تو جو مال غنیمت ہاتھ آئے اس کی تقسیم اللہ کے حکم کے مطابق کریں۔ اور اس میں نزاع واختلاف نہ کریں۔ مال غنیمت کے مصارف کی بھی تفصیل کی گئی۔ سورة توبہ میں اعلان جہاد کا اعادہ کیا گیا۔ اور تفصیل سے بتایا کہ کن کن لوگوں سے جہاد کرنا ہے۔ یعنی جو لوگ ڑی اللہ کی نذریں دیتے اور غیر اللہ کے لیے تحری میں کرتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام، بزرگانِ دین کو متصرف و کارساز سمجھتے ہیں۔ اور اللہ کی تحریمات کو باقی نہیں رکھتے۔ ان کے ساتھ اعلانِ جنگ کردو۔ سورة انفال میں بھی اگرچہ قتال کا حکم بالاجمال موجود ہے مگر وہاں مقصود قوانین جنگ اور مصارفِ غنیمت کا بیان ہے۔ اور سورة توبہ میں مقصود اعلانِ جنگ کا حکم ہے۔ اس لیے اس مضنو یعنی قتال دی سبیل اللہ کو اس میں تفصیل سے ذکر کیا گیا۔ یہ تو سورة توبہ کا ماقبل سے معنوی ربط ہے۔ اسمی ربط یہ ہے کہ مشرکین سے اعلان جنگ کردو اور فتح کے بعد حاصل ہونے والے انفال کو اللہ کے حکم کے مطابق تقسیم کرو لیکن “ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوْا الصَّلٰوةَ ”(رکوع 2) اگر وہ شرک سے توبہ کرلیں۔ اسلام لے آئیں اور اسلام کے احکام پر عمل کرنے لگیں تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔ پھر ان سے جہاد مت کرو۔ خلاصہ :۔ سورة توبہ کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ ابتداء سے لے کر رکوع نمبر 5 کے آخر تک “ لَا يَھْدِ 5ْ الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ” تک ہے اور دوسرا حصہ رکوع 6 کی ابتداء “ يَا اَيُّھَا الَّذيْنَ اٰمَنُوْا مَالَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا الخ ” سے لے کر “ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ ” (رکوع 15) تک ہے۔ اور “ يَا اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوْا الَّذيْنَ يَلُوْنَکُمْ ” سے آخر سورت تک مضامین سورت کا اعادہ ہے۔ پہلے حصے میں بد عہدی کرنیوالے مشرکین سے اعلان براءت، مشرکین کے ساتھ اعلان جنگ، مشرکین سے جنگ کرنے کے بارے میں شبہات کا جواب جو ان کے ساتھ قتال کرنے کے موانع تھے اور مشرکین سے قتال کرنے کے اسباب ووجوہ مذکور ہیں۔ اور دوسرے حصے میں منافقین پر زجریں، اور مومنین کے لیے ترغیب الی القتال ہے۔ دوسرے حصے کے آخر میں “ مَا کَانَ للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا الخ ” سے فرمایا مشرکین سے جہاد جاری رکھو۔ اور تمہارے جو متعلقین حالت کفر میں مرچکے ہیں یا جن کے دلوں پر مہر جباریت لگ چکی ہے ان کے لیے دعائے مغفرت بھی کرو اگرچہ وہ نہایت قریبی رشتہ دار ہوں۔ پہلا حصہ : پہلے حصے کی ابتداء میں “ بَرَآءَ ةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ الخ ” میں بد عہدی کرنے والے مشرکین سے اعلانِ براءت ہے۔ یعنی جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ تھا مگر انہوں نے معاہدہ توڑ دیا تم بھی معاہدے سے اعلان براءت کردو اور سارے ملک میں اس اعلان کی چار ماہ تک خوب اشاعت کرو اور پھر حج کے موقع پر بھی اس اعلان کو دہراؤ۔ “ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰھَدْتُّمْ الخ ” سے ان مشرکین کو مستثنی کردیا گیا جنہوں نے اپنا عہد نہیں توڑا اور تمہارے خلاف دشمن کی مدد نہیں کی ان سے اپنا عہد قائم رکھو اور میعاد معاہدہ کے اختتام تک ان سے تعرض مت کرو۔ جب اشہر حرم گذر جائیں تو عہد توڑنے والے مشرکین جہاں کہیں بھی مل جائیں انہیں قتل کر ڈالو۔ “ وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ ” سے پناہ مانگنے والے مشرکین کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ “ کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَھْدٌ الخ ”(رکوع 2) یہ مانع اول کا جواب ہے۔ مانع یہ تھا کہ ان مشرکین سے تو معاہدہ کیا گیا ہے ان سے جہاد کیونکر جائز ہے۔ جواب دیا گیا کہ جب انہوں نے عہد توڑ دیا تو اب مانع باقی نہ رہا۔ اب ان سے جہاد کرو۔ “ مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا الخ ”(رکوع 3) یہ مانع دوم کا جواب ہے۔ مانع دوم یہ تھا کہ مشرکین تو بڑے نیک کام کر رہے ہیں۔ بیت اللہ کی تعمیر میں حصہ لے رہے ہیں اور حاجیوں کی خدمت کرتے ہیں فرمایا کفر وشرک کی حالت میں اعمال صالحہ کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ اعمال رائیگاں ہیں۔ اعمال کی قبولیت کا مدار ایمان پر ہے اور وہ ایمان سے خالی ہیں۔ اس کے بعد “ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا الخ ” میں مہاجرین اور مجاہدین کے لیے بشارت اخروی ہے۔ “ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا الخ ”(رکوع 3) یہ تیسرے مانع کا جواب ہے یعنی مشرکین سے تو قریبی رشتہ داریاں ہیں ان سے جنگ کرنے سے قطع رحمی ہوگی۔ فرمایا اگر اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلے میں تمہیں رشتہ داریاں اور مالی منافع زیادہ عزیز ہیں تو پھر تم بھی اللہ کے عذاب کا انتظار کرو۔ اس کے بعد “ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰهُ الخ ” (رکوع 4) بشارت دنیوی ہے۔ “ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً الخ ” یہ چوتھے مانع کا جواب ہے۔ یعنی اگر مشرکین سے جہاد کی صورت میں کاروبار تباہ ہونے اور مالی پریشانیوں کا اندیشہ ہو تو اس کی پرواہ نہ کرو۔ اللہ تمہیں فراخی سے دولت عطا فرمائے گا۔ “ قَاتِلُوْا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ الخ ” یہاں سورة انفال کے دعوے کو تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کن لوگوں کے ساتھ قتال کرنا ہے اور ان لوگوں سے قتال کے اسباب وو جوہ کیا ہیں۔ یعنی جو لوگ اللہ کی توحید اور پیغمبر خدا ﷺ کی رسالت پر ایمان نہیں لاتے اور غیر اللہ کو متصرف و کارساز سمجھ کر ان کے لیے تحری میں کرتے اور نذریں دیتے ہیں اور اللہ کی تحریمات کو باقی نہیں رکھتے ان سے جہاد کرو وہ خواہ مشرکین عرب ہوں یا یہود اور نصاریٰ “ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِر ” یہ قتال کی پہلی وجہ ہے۔ یعنی اللہ پر، اللہ کے سول پر اور قیامت پر ان کا ایمان نہیں۔ دوسری وجہ “ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٗهُ وَرَسُوْلُهٗ ” وہ محرمات الٰہیہ مثلاً غیر اللہ کی نذر ونیاز کو حرام نہیں سمجھتے۔ تیسری وجہ “ وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصَارٰي الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰه ”(رکوع 5) ۔ یہود حضرت عزیر کو اور عیسائی حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور نائب متصرف سمجھتے ہیں۔ چوتھی وجہ “ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا الخ ” انہوں نے اپنے مولویوں، پیروں، گدی نشینوں اور حضرت مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا کارساز بنا رکھا ہے۔ پانچویں وجہ قتال “ يَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ والرُّھْبَانِ الخ ” یہود و نصاریٰ کے بہت سے علماء اور پیر و فقیر لوگوں کو اللہ کی راہ (راہ توحید) سے روکنے اور ناجائز ہتھکنڈوں سے لوگوں کا مال بٹورتے ہیں۔ چھٹی وجہ قتال “ اِنَّ عِدَّ ةَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا الخ ” اللہ تعالیٰ نے روز اول سے مہینوں کی تعداد بارہ مقرر کی اور ان میں سے چار مہینوں کو قابل احترام ٹھہرایا مگر ان مشرکین نے ان میں اپنی طرف سے رد و بدل کردیا وہ عزت والے مہینوں میں جنگ و قتال کر کے ان کی جگہ دوسرے مہینوں کو عزت والے قرار دے کر ان میں جنگ نہ کرتے۔ جن مشرکین نے اشہر حرم کا احترام باقی نہیں رکھا ان سے بھی قتال کرو۔ دوسرا حصہ :“ يَا اَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَالَکُمْ الخ ” (رکوع 6) بیان دعویٰ کے بعد مومنوں کے لیے ترغیب الی القتال، منافقین اور ان مومنوں کے لیے جو جہاد میں شریک نہیں ہوئے زجر وتوبیخ کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں سے “ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ” تک ترغیب الی القتال ہے۔ دوسرے حصے میں صحابہ کرام کی تین اور منافقین کی چار جماعتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ صحابہ کی تین جماعتیں (1) وہ مہاجرین وانصار جو جان و دل سے جنگ تبوک میں شریک ہوئے اور جہاد کیا۔ آیات ذیل میں ان کے فضائل اور ان کے لیے بشارتیں مذکور ہیں۔ “ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤِمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ” تا “ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ” (رکوع 9) ، “ لٰکِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَه ” تا “ ذٰلِکَ الْفَوْزُالْعَظِیْمُ ” (رکوع 11) ، “ وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يُّؤمِنُ بِاللّٰهِ ” (رکوع 12) تا “ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ” (رکوع 13) ، “ اِنَّ اللّٰه اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ ” تا “ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ” (رکوع 14) ، “ لَقَدْ تَابَ اللّٰهُ عَلَی النَّبِيِّ وَالْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنصَارِ ” تا “ اِنَّهٗ بِھِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ” (2) وہ پانچ صحابہ کرام جو مخلص مؤمن تھے مگر جہاد میں شریک نہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے کو ستونوں سے باندھ لیا اور گڑ گڑا کر توبہ کی۔ اللہ نے ان کو توبہ قبول فرما لی۔ “ وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِھِمْ ” تا “ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ” (رکوع 13) میں ان کا ذکر ہے۔ (3) ۔ وہ تین صحابہ جو قدیم الایمان اور نہایت مخلص تھے اور سستی کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہوئے اورحضور ﷺ کی واپسی پر کوئی عذر نہیں تراشا۔ بلکہ اپنا قصور صاف صاف بیان کردیا ان کو بطور تادیب پچاس دن کی ڈھیل دی اور اس کے بعد ان کی توبہ قبول فرمائی۔ ان کا ذکر ان دو آیتوں میں ہے۔ “ وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا یُعَذِّبَھُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ” (رکوع 13) اور “ وَ عَلَی الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا ” تا “ اِنَّ اللّٰهَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ” (رکوع 14) منافقین کی حسب ذیل چار جماعتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ (1) ۔ وہ منافقین جو جہاد میں شریک نہ ہوئے اورحضور ﷺ کی جہاد سے واپسی پر جھوٹے بہانے تراشنا شروع کیے۔ حسب ذیل مقامات میں ان کے احوال وقبائح مذکور ہیں۔ “ لَوْ کَانَ عَرَضاً قَرِیْباً ” (رکوع 6) تا “ اِنَّ اللّٰهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ ” (رکوع 8) ۔ “ فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِھِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ ”(رکوع 11) تا “ فَھُمْ لَایَفْقَھُوْنَ ” (رکوع 11) ، “ وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ ” (رکوع 13) تا “ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ” رکوع 12 ۔ (2) ۔ وہ منافقین جو جہاد میں شریک نہ ہوئے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے مسجد ضرار تعمیر کی۔ ان کا ذکر “ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَاراً ” (رکوع 13) تا “ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ” (رکوع 13) میں ہے۔ (3) ۔ وہ منافقین جو ازراہِ نفاق جہاد میں شریک ہوئے مگر راستہ میں مسلمانوں کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کرتے رہے۔ ان کا ذکر “ وَ لَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ ” تا “ کَانُوْا مُجْرِمِیْن ” (رکوع 8) میں ہے۔ (4) ۔ وہ منافقین جنہوں نےحضور ﷺ کی جنگ تبوک سے واپسی پر آپ کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو ان کی ناپاک سازش کی اطلاع دے دی۔ ان کا ذکر “ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْا ” تا “ مِنْ وَّ لِيٍّ وَّ لَا نَصِیْرٌ ” (رکوع 10) میں کیا گیا ہے۔ اس حصے میں ثعلبہ منافق کا واقعہ بھی مذکور ہے جس نےحضور ﷺ سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا عہد کیا تھا مگر عہد پر قائم نہ رہا۔ اس کا واقعہ “ وَ مِنْھُمْ مَّنْ عٰھَدَ اللّٰهَ الخ ” رکوع 10 میں مذکور ہے۔ سورت کے آخری رکوع میں سورت کے تمام مضامین کا بالاجمال اعادہ کیا گیا ہے۔ “ يَا اَيُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوْا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ الخ ” میں حکم قتال کا اعادہ ہے۔ “ لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ الخ ” میں ترغیب اتباع رسول کا اعادہ ہے اور “ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ” میں مسئلہ توحید کا بیان ہے جس کی خاطر جہاد کا حکم دیا گیا۔ 2: حصہ اول : سورة براءت کا پہلا حصہ جو ابتداء سے لے کر رکوع 5 کے آخر یعنی “ وَ اللّٰهُ لَایَھْدِيْ الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ” تک ہے۔ اس میں تین امور مذکور ہیں۔ (1) اعلان براءت از مشرکین۔ (2) جہاد کے چار موانع کا جواب اور (3) مشرکین سے جہاد کرنے کے وجوہ۔ سورة براءت سے پہلے بسم اللہ نہیں لکھی گئی اس کی مختلف وجوہ ذکر کی گئی ہیں، اقرب الی الصواب یہ ہے کہ اس سورت سے پہلے بسم اللہ نازل ہی نہیں ہوئی تھی کیونکہ بسم اللہ امان ہے اور سورة توبہ قتال کا حکم لے کر نازل ہوئی جیسا کہ حضرت علی، محمد بن حنفیہ اور سفیان بن عیینہ سے منقول ہے۔ “ عن علی کرم اللہ تعالیٰ وجھه من ان البسملة امان و براءة نزلت بالسیف و مثله عن محمد بن الحنفیة وسفیان بن عیینة و مرجع ذلک الی انھا لم تنزل فی ھذه السورة کا خوا تھا لما ذکر ” (روح ج 10 ص 41) ۔ مسلمانوں کا مشرکین سے معاہدہ تھا مگر مشرکین اپنے عہد پر قائم نہ رہے اور انہوں نے عہد توڑ ڈالا البتہ بنی ضمرہ اور بنی کنانہ اپنے عہد پر قائم رہے۔ قریش اور ان کے حلیف قبیلہ بنی بکر نے مسلمانوں کے حلیف بنی خزاعہ پر ظالمانہ حملہ کر کے ان کو نقصان پہنچایا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ عہد شکن مشرکین سے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیں اور ان کو چار ماہ کی مہت دیدیں تاکہ اس دوران میں وہ یا تو وطن سے نکل جائیں یا اسلام قبول کرلیں یا پھر جنگ کیلئے تیار ہوجائیں۔ یہ حکم شوال سن 9 ھجری میں نازل ہوا تھا۔ اور چار مہینوں سے شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم مراد ہیں۔ اعلان براءت کے بارے میں فرمایا کہ سارے ملک میں براءت کا عام اعلان کردو اور براءت نامے لکھ کر ملک میں پھیلا دو تاکہ سب کو براءت کا علم ہوجائے۔ “ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِيْ الْکٰفِرِیْنَ ”، “ اَنَّکُمْ ” کی ضمیر منصوب پر معطوف ہے۔
Top