Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 136
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓئِكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والو) اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَالْكِتٰبِ : اور کتاب الَّذِيْ نَزَّلَ : جو اس نے نازل کی عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول پر وَالْكِتٰبِ : اور کتاب الَّذِيْٓ اَنْزَلَ : جو اس نے نازل کی مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَمَنْ : اور جو يَّكْفُرْ : انکار کرے بِاللّٰهِ : اللہ کا وَمَلٰٓئِكَتِهٖ : اور اس کے فرشتوں وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابوں وَرُسُلِهٖ : اسکے رسولوں وَالْيَوْمِ : اور روز الْاٰخِرِ : آخرت فَقَدْ ضَلَّ : تو وہ بھٹک گیا ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ166 اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا 167 وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا
سورة النِّسَآء 166 ایمان لانے والوں سے کہنا کہ ایمان لاؤ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن دراصل یہاں لفظ ایمان دو الگ معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایمان لانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی انکار کے بجائے اقرار کی راہ اختیار کرے، نہ ماننے والوں سے الگ ہو کر ماننے والوں میں شامل ہوجائے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو مانے اسے سچے دل سے مانے۔ پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ مانے۔ اپنی فکر کو، اپنے مذاق کو، اپنی پسند کو، اپنے رویے اور چلن کو، اپنی دوستی اور دشمنی کو، اپنی سعی و جہد کے مصرف کو بالکل اس عقیدے کے مطابق بنالے جس پر وہ ایمان لایا ہے۔ آیت میں خطاب ان تمام مسلمانوں سے ہے جو پہلے معنی کے لحاظ سے ”ماننے والوں“ میں شمار ہوتے ہیں۔ اور ان سے مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ دوسرے معنی کے لحاظ سے سچے مومن بنیں۔ سورة النِّسَآء 167 کفر کرنے کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی صاف صاف انکار کر دے۔ دوسرے یہ کہ زبان سے تو مانے مگر دل سے نہ مانے ، یا اپنے رویّے سے ثابت کر دے کہ وہ جس چیز کو ماننے کا دعویٰ کر رہا ہے فی الواقع اسے نہیں مانتا۔ یہاں کفر سے یہ دونوں معنی مراد ہیں اور آیت کا مقصُود لوگوں کو اس بات پر متنبّہ کرنا ہے کہ اسلام کے اِن اساسی عقیدوں کے ساتھ کفر کی اِن دونوں اقسام میں سے جس قسم کا برتاؤ بھی آدمی اختیار کرے گا ، اس کا نتیجہ حق سے دوری اور باطل کی روہوں میں سر گشتگی و نا مرادی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
Top