Tafheem-ul-Quran - Al-Hujuraat : 8
فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ نِعْمَةً١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کے فضل سے وَنِعْمَةً ۭ : اور نعمت وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ : اور اللہ جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رو ہیں10 اور اللہ علیم و حکیم ہے۔11
سورة الْحُجُرٰت 10 مطلب یہ ہے کہ پوری جماعت مومنین اس غلطی کی مرتکب نہیں ہوئی جس کا صدور ان چند لوگوں سے ہوا جو اپنی خام رائے پر رسول اللہ ﷺ کو چلانا چاہتے تھے۔ اور جماعت مومنین کے راہ راست پر قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فضل و احسان سے ایمان کی روش کو ان کے لیے محبوب و دل پسند بنادیا ہے اور کفر و فسق اور نافرمانی کی روش سے انہیں متنفر کردیا ہے۔ اس آیت کے دو حصوں میں روئے سخن دو الگ الگ گرہوں کی طرف ہے۔ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ کا خطاب پوری جماعت صحابہ سے نہیں بلکہ ان خاص اصحاب سے ہے جو بنی المصطلق پر چڑھائی کردینے کے لیے اصرار کر رہے تھے۔ اور وَلٰکِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمْ کا خطاب عام صحابہ سے ہے جو رسول اللہ ﷺ کے سامنے اپنی رائے پر اصرار کرنے کی جسارت کبھی نہ کرتے تھے، بلکہ آپ کی رہنمائی پر اعتماد کرتے ہوئے ہمیشہ اطاعت کی روش پر قائم رہتے تھے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جنہوں نے اپنی رائے پر اصرار کیا تھا وہ ایمان کی محبت سے خالی تھے۔ بلکہ اس سے جو بات مترشح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ایمان کے اس تقاضے کی طرف سے ان کو ذہول ہوگیا تھا جس کے باعث انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں اپنی رائے پر اصرار کرنے کی غلطی کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کو اس غلطی پر، اور اس کے برے نتائج پر متنبہ فرمایا، اور پھر یہ بتایا کہ صحیح ایمانی روش وہ ہے جس پر صحابہ کی عام جماعت قائم ہے۔ سورة الْحُجُرٰت 11 یعنی اللہ کا یہ فضل و احسان کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے۔ یہ نعمت عظمیٰ جس کو بھی وہ دیتا ہے حکمت کی بنا پر اور اس علم کی بنا پر دیتا ہے کہ وہ اس کا مستحق ہے۔
Top