Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 5
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ فِیْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِ١ؕ لَوْ یُطِیْعُكُمْ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَۙ
وَاعْلَمُوْٓا : اور جان رکھو اَنَّ فِيْكُمْ : کہ تمہارے درمیان رَسُوْلَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے رسول لَوْ يُطِيْعُكُمْ : اگر وہ تمہارا کہا مانیں فِيْ كَثِيْرٍ : اکثر میں مِّنَ الْاَمْرِ : کاموں سے، میں لَعَنِتُّمْ : البتہ تم ایذا میں پڑو وَلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن اللہ حَبَّبَ : محبت دی اِلَيْكُمُ : تمہیں الْاِيْمَانَ : ایمان کی وَزَيَّنَهٗ : اور اسے آراستہ کردیا فِيْ قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں میں وَكَرَّهَ : اور ناپسند کردیا اِلَيْكُمُ : تمہارے سامنے الْكُفْرَ : کفر وَالْفُسُوْقَ : اور گناہ وَالْعِصْيَانَ ۭ : اور نافرمانی اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ : وہ ہدایت پانیوالے
اس کو ایک مضبوط قوتوں والے، نے تعلیم دی ہے۔
(علمہ شدید القوی) (5) (حضرت جبرئیل ؑ کی صفات) کلام اور صاحب کلام کی صفات بیان کرنے کے بعد یہ اس فرشتہ (حضرت جبرئیل) کی صفات بیان ہو رہی ہے جس نے اس کلام کی نبی ﷺ کو تعلیم دی۔ فرمایا کہ وہ (شدید القوی) یعنی تمام اعلیٰ صفات اور صلاحیتیوں سے بھر پور اور اس کی ہر صفت و صلاحیت نہیں محکم و مضبوط ہے۔ اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کوئی دوسری روح اس کو متاثر یا مرعوب کرسکے، اس سے خیانت کا ارتکاب کر اسکے یا اس کی تعلیم میں کوئی خلط مبحث کرسکے یا اس سے کوئی فروگذاشت ہو سکے یا اس کو کوئی وسوسہ لا حق ہو سکے۔ اس طرح کی تمام کمزوروں سے اللہ تعالیٰ نے اس کو محفوظ رکھا ہے تاکہ جو فرض اس کے سپرد فرمایا ہے اس کو وہ بغیر کسی خلل و نساء کے پوری دیانت و امانت کے ساتھ دا کرسکے۔ سورة تکویر میں اس فرشتہ کی تعریف یوں آئی ہے۔ (انہ لقول رسول کریم ذی قوۃ عند ذی العرش مکین مطاع ثم امین) (19، 21) (یہ ایک با عزت فرستادہ کی وحی ہے، وہ بڑی قوت والا اور عرش والے کے نزدیک بارسوخ ہے، اس کی اطاعت کی جاتی ہے، مزید برآں وہ نہایت امین ہے۔) زومرۃ۔ یعنی وہ اپنی عقل اور اپنے کردار میں نہایت محکم ہے۔ اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ کوئی دھوکہ کھا سکے یا کوئی اس کو دھوکہ دے سکے یا وہ کسی کے ہاتھ بک سکے اور کوئی اس کو خرید سکے، یہ لفظ اخلاقی و عقلی برتری کے لیے آتا ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ حضرت جبرئیل ؑ کی یہ صفات کاہنوں اور نجومیوں کے مصدر الہام کی تحقیر ہی کے لیے نہیں بیان ہوئی ہیں بلکہ یہود اور ان کے ہم مشرب روافض نے جیسا کہ سورة بقرہ کی تفسیریں ہم اشارہ کر آئے ہیں، آپ پر نعوذ باللہ خیانت، جانب داری اور بےبصیرتی کا الزام لگایا ہے اور اسی بنا پر ان کو حضرت جبریل ؑ سے ہمیشہ عداوت بھی رہی ہے جس کا حوالہ قرآن مجید میں موجود ہے۔
Top