Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafheem-ul-Quran - Al-Hujuraat : 9
وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا١ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِ١ۚ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
وَاِنْ
: اور اگر
طَآئِفَتٰنِ
: دو گروہ
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں سے، کے
اقْتَتَلُوْا
: باہم لڑپڑیں
فَاَصْلِحُوْا
: توصلح کرادو تم
بَيْنَهُمَا ۚ
: ان دونوں کے درمیان
فَاِنْۢ
: پھر اگر
بَغَتْ
: زیادتی کرے
اِحْدٰىهُمَا
: ان دونوں میں سے ایک
عَلَي الْاُخْرٰى
: دوسرے پر
فَقَاتِلُوا
: تو تم لڑو
الَّتِيْ
: اس سے جو
تَبْغِيْ
: زیادتی کرتا ہے
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَفِيْٓءَ
: رجوع کرے
اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ
: حکم الہی کی طرف
فَاِنْ
: پھر اگر جب
فَآءَتْ
: وہ رجوع کرلے
فَاَصْلِحُوْا
: تو صلح کرادو تم
بَيْنَهُمَا
: ان دونوں کے درمیان
بِالْعَدْلِ
: عدل کے ساتھ
وَاَقْسِطُوْا ۭ
: اور تم انصاف کیا کرو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
الْمُقْسِطِيْنَ
: انصاف کرنے والے
اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑجائیں
12
تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔
13
پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو
14
یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔
15
پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو۔
16
اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
17
سورة الْحُجُرٰت
12
یہ نہیں فرمایا کہ " جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑیں "، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں "۔ ان الفاظ سے یہ بات خود بخود نکلتی ہے کہ آپس میں لڑنا مسلمانوں کا معمول نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے۔ نہ ان سے یہ امر متوقع ہے کہ وہ مومن ہوتے ہوئے آپس میں لڑا کریں گے۔ البتہ اگر کبھی ایسا ہوجائے تو اس صورت میں وہ طریق کار اختیار کرنا چاہیے جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔ علاوہ بریں گروہ کے لیے بھی " فرقہ " کے بجائے " طائفہ " کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں فرقہ بڑے گروہ کے لیے اور طائفہ چھوٹے گروہ کے لیے بولا جاتا ہے اس سے بھی یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ حالت ہے جس میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کا مبتلا ہوجانا متوقع نہیں ہونا چاہیے۔ سورة الْحُجُرٰت
13
اس حکم کے مخاطب وہ تمام مسلمان ہیں جو ان دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوں، اور جن کے لیے ان کے درمیان صلح کی کوشش کرنا ممکن ہو۔ دوسرے الفاظ میں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کی اپنی ملت کے دو گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں اور وہ بیٹھے ان کی لڑائی کا تماشا دیکھتے رہیں۔ بلکہ یہ افسوسناک صورت حال جب بھی پیدا ہو، تمام اہل ایمان کو اس پر بےچین ہوجانا چاہیے اور ان کے باہمی معاملات کی اصلاح کے لیے جس کے بس میں جو کوشش بھی ہو وہ اسے صرف کر ڈالنی چاہیے۔ فریقین کو لڑائی سے باز رہنے کی تلقین کی جائے۔ انہیں خدا سے ڈرایا جائے۔ با اثر لوگ فریقین کے ذمہ دار آدمیوں سے جا کر ملیں۔ نزاع کے اسباب معلوم کریں۔ اور اپنی حد تک ہر وہ کوشش کریں جس سے ان کے درمیان مصالحت ہو سکتی ہو۔ سورة الْحُجُرٰت
14
یعنی مسلمانوں کا یہ کام بھی نہیں ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے دیں اور جس پر زیادتی کی جارہی ہو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں، یا الٹا زیادتی کرنے والے کا ساتھ دیں۔ بلکہ ان کا فرض یہ ہے کہ اگر لڑنے والے فریقین میں صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں، تو پھر یہ دیکھیں کہ حق پر کون ہے اور زیادتی کرنے والا کون۔ جو حق پر ہو اس کا ساتھ دیں اور جو زیادتی کرنے والا ہو اس سے لڑیں۔ اس لڑائی کا چونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس لیے یہ واجب ہے اور جہاد کے حکم میں ہے اس کا شمار اس فتنے میں نہیں ہے جس کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ القائم فیھَا خیرٌ من الماشی والقاعد فیھا خیر من القائم (اس میں کھڑا رہنے والا چلنے والے سے، اور بیٹھ جانے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہے)۔ کیونکہ اس فتنے سے مراد تو مسلمانوں کی وہ باہمی لڑائی ہے جس میں فریقین عصبیت اور حمیت جاہلیہ اور طلب دنیا کے لیے لڑ رہے ہوں اور دونوں میں سے کوئی بھی حق پر نہ ہو۔ رہی یہ لڑائی جو زیادتی کرنے والے گروہ کے مقابلہ میں برسر حق گروہ کی حمایت کے لیے لڑی جائے، تو یہ فتنے میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔ تمام فقہاء کا اس کے وجوب پر اتفاق ہے اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں اس کے واجب ہونے پر کوئی اختلاف نہ تھا (احکام القرآن للجصاص)۔ بلکہ بعض فقہاء تو اسے جہاد سے بھی افضل قرار دیتے ہیں اور ان کا استدلال یہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے اپنا پورا زمانہ خلافت کفار سے جہاد کرنے کے بجائے باغیوں سے لڑنے میں صرف کردیا (روح المعانی)۔ اس کے واجب نہ ہونے پر اگر کوئی شخص اس بات سے استدلال کرے کہ حضرت علی ؓ کی ان لڑائیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور بعض دوسرے صحابہ نے حصہ نہیں لیا تھا تو وہ غلطی پر ہے۔ ابن عمر خود فرماتے ہیں کہ ما وجدت فی نفسی من شئ ما وجدت من ھٰذہ الاٰیۃ اَنّی لم اقاتل ھٰذہ الفئۃ الباغیۃ کما امرنی اللہ تعالیٰ ، (المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، باب الدفع عمن قعدوا عن بیعۃ علی) " مجھے اپنے دل میں کسی بات پر اتنی زیادہ کھٹک نہیں ہوئی جتنی اس آیت کی وجہ سے ہوئی کہ میں نے اللہ کے حکم کے مطابق اس باغی گروہ سے جنگ نہ کی " زیادتی کرنے والے گروہ سے " قتال " کرنے کا حکم لازماً یہی معنی نہیں رکھتے کہ اس کے خلاف ہتھیاروں سے جنگ کی جائے اور ضرور اس کو قتل ہی کیا جائے۔ بلکہ اس سے مراد اس کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا چاہیے، اور اصل مقصود اس کی زیادتی کا ازالہ ہے۔ اس مقصد کے لیے جس طاقت کا استعمال ناگزیر ہو اسے استعمال کرنا چاہیے اور جتنی طاقت کا استعمال کافی ہو، نہ اس سے کم استعمال کرنی چاہیے نہ اس سے زیادہ۔ اس حکم کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو طاقت استعمال کر کے زیادتی کا ازالہ کرنے پر قادر ہوں۔ سورة الْحُجُرٰت
15
اس سے معلوم ہوا کہ یہ لڑائی باغی (زیادتی کرنے والے گروہ) کو بغاوت (زیادتی) کی سزا دینے کے لیے نہیں ہے بلکہ اسے اللہ کے حکم کی طرف پلٹنے پر مجبور کرنے کے لیے ہے۔ اللہ کے حکم سے مراد یہ ہے کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے جو بات حق ہو اسے یہ باغی گروہ قبول کرلینے پر آمادہ ہوجائے اور جو طرز عمل اس میزان حق کی رو سے زیادتی قرار پاتا ہے اس کو چھوڑ دے۔ جونہی کہ کوئی باغی گروہ اس حکم کی پیروی پر راضی ہوجائے، اس کے خلاف طاقت کا استعمال بند ہوجانا چاہیے، کیونکہ یہی قتال کا مقصود اور اس کی آخری حد ہے۔ اس کے بعد مزید دست درازی کرنے والا خود زیادتی کا مرتکب ہوگا۔ اب رہی یہ بات کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے ایک نزاع میں حق کیا ہے اور زیادتی کیا، تو لا محالہ اس کو طے کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو امت میں اور علم اور بصیرت کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرنے کے اہل ہوں۔ سورة الْحُجُرٰت
16
محض صلح کرا دینے کا حکم نہیں ہے بلکہ عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرانے کا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ صلح کوئی قابل قدر چیز نہیں ہے جو حق اور باطل کے فرق کو نظر انداز کر کے محض لڑائی روکنے کے لیے کرائی جائے اور جس میں برسر حق گروہ کو دبا کر زیادتی کرنے والے گروہ کے ساتھ بےجا رعایت برتی جائے۔ صلح وہی صحیح ہے جو انصاف پر مبنی ہو۔ اسی سے فساد ٹلتا ہے، ورنہ حق والوں کو دبانے اور زیادتی کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہوتا ہے کہ خرابی کے اصل اسباب جوں کے توں باقی رہتے ہیں، بلکہ ان میں اور اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اور اس سے بار بار فساد برپا ہونے کی نوبت پیش آتی ہے۔ سورة الْحُجُرٰت
17
یہ آیت مسلمانوں کی باہمی جنگ کے بارے میں شرعی قانون کی اصل بنیاد ہے۔ ایک حدیث کے سوا جس کا ہم آگے ذکر کریں گے، اس قانون کی کوئی تشریح رسول اللہ ﷺ کی سنت میں نہیں ملتی، کیونکہ حضور کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جنگ کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی کہ آپ کے عمل اور قول سے اس کے احکام کی تفصیلات معلوم ہوتیں۔ بعد میں اس قانون کی مستند تشریح اس وقت ہوئی جب حضرت علی ؓ کے عہد خلافت میں خود مسلمانوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں۔ اس وقت چونکہ بکثرت صحابہ کرام موجود تھے، اس لیے ان کے عمل اور ان کے بیان کردہ احکام سے اسلامی قانون کے اس شعبے کا مفصل ضابطہ مرتب ہوا۔ خصوصیت کے ساتھ حضرت علی ؓ کا اسوہ اس معاملہ میں تمام فقہاء کا اصل مرجع ہے۔ ذیل میں ہم اس ضابطہ کا ایک ضروری خلاصہ درج کرتے ہیں
1
)۔ مسلمانوں کی باہمی جنگ کی کئی صورتیں ہیں جن کے حکم الگ الگ ہیں۔ (الف) لڑنے والے دونوں گروہ کسی مسلمان حکومت کی رعایا ہوں۔ اس صورت میں ان کے درمیان صلح کرانا، یا یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں سے زیادتی کرنے والا کون ہے، اور طاقت سے اس کو حق کی طرف رجوع پر مجبور کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔ (ب) لڑنے والے فریقین دو بہت بڑے طاقتور گروہ ہوں، یا دو مسلمان حکومتیں ہوں، اور دونوں کی لڑائی دنیا کی خاطر ہوں۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس فتنے میں حصہ لینے سے قطعی اجتناب کریں اور فریقین کو خدا کا خوف دلا کر جنگ سے باز رہنے کی نصیحت کرتے رہیں۔ (ج) لڑنے والے وہ فریقین جن کا اوپر (ب) میں ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے ایک حق پر ہو اور دوسرا زیادتی کر رہا ہو، اور نصیحت سے اصلاح پر آمادہ نہ ہو رہا ہو۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف برسر حق فریق کا ساتھ دیں۔ (د) فریقین میں سے ایک گروہ رعیت ہو اور اس نے حکومت، یعنی مسلم حکومت کے خلاف خروج کیا ہو۔ فقہاء اپنی اصلاح استعمال کرتے ہیں۔
2
)۔ باغی، یعنی حکومت کے خلاف خروج کرنے والے گروہ بھی متعدد اقسام کے ہو سکتے ہیں (الف) وہ جو محض فساد برپا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے اس خروج کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو۔ ان کے خلاف حکومت کی جنگ بالاتفاق جائز ہے اور اس کا ساتھ دینا اہل ایمان پر واجب ہے، قطع نظر اس سے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو۔ (ب) وہ جو حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے خروج کریں، اور ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو، بلکہ ان کا ظاہر حال بتارہا ہو کہ وہ ظالم و فاسق ہیں۔ اس صورت میں اگر حکومت عادل ہو تب تو اس کا ساتھ دینا بلا کلام واجب ہے، لیکن اگر وہ عادل نہ بھی ہو تو اس حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے لڑنا واجب ہے جس کے ذریعہ سے فی الحال مملکت کا نظم قائم ہے۔ (ج) وہ جو کسی شرعی تاویل کی بنا پر حکومت کے خلاف خروج کریں، مگر ان کی تاویل باطل اور ان کا عقیدہ فاسد ہو مثلاً خوارج۔ اس صورت میں بھی، مسلم حکومت، خواہ وہ عادل ہو یا نہ ہو، ان سے جنگ کرنے کا جائز حق رکھتی ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب ہے۔ (د) وہ جو ایک عادل حکومت کے خلاف خروج کریں جبکہ اس کے سربراہ کی امارت جائز طور پر قائم ہوچکی ہو۔ اس صورت میں خواہ ان کے پاس کوئی شرعی تاویل ہو یا نہ ہو، بہرحال ان سے جنگ کرنے میں حکومت حق بجانب ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب۔ (ھ) وہ جو ایک ظالم حکومت کے خلاف خروج کریں جس کی امارت جبراً قائم ہوئی ہو اور جس کے امراء فاسق ہوں، اور خروج کرنے والے عدل اور حدود اللہ کی اقامت کے لیے اٹھے ہوں اور ان کا ظاہر حال یہ بتارہا ہو کہ وہ خود صالح لوگ ہیں۔ اس صورت میں ان کو " باغی " یعنی زیادتی کرنے والا گروہ قرار دینے اور ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دینے میں فقہاء کے درمیان سخت اختلاف واقع ہوگیا ہے، جسے مختصراً ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔ جمہور فقہاء اور اہل الحدیث کی رائے یہ ہے کہ جس امیر کی امارت ایک دفعہ قائم ہوچکی ہو اور مملکت کا امن وامان نظم و نسق اس کے انتظام میں چل رہا ہو، وہ خواہ عادل ہو یا ظالم، اور اس کی امارت خواہ کسی طور پر قائم ہوئی ہو، اس کے خلاف خروج کرنا حرام ہے، الا یہ کہ وہ کفر صریح کا ارتکاب کرے۔ امام سرخسی لکھتے ہیں کہ " جب مسلمان ایک فرمانروا پر مجتمع ہوں اور اس کی بدولت ان کو امن حاصل ہو اور راستے محفوظ ہوں، ایسی حالت میں اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ اس کے خلاف خروج کرے تو جو شخص بھی جنگ کی طاقت رکھتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے اس فرمانروا کے ساتھ مل کر خروج کرنے والوں کے خلاف جنگ کرے " (البسوط، باب الخوارج)۔ امام، لودی شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ " ائمہ، یعنی مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف خروج اور قتال حرام ہے، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہی کیوں نہ ہوں "۔ اس پر امام نووی اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن اس پر اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ فقہائے اسلام کا ایک بڑا گروہ، جس میں اکابر اہل علم شامل ہیں، خروج کرنے والوں کو صرف اس صورت میں " باغی " قرار دیتا ہے جبکہ وہ امام عادل کے خلاف خروج کریں۔ ظالم و فاسق امراء کے خلاف صلحاء کے خروج کو وہ قرآن مجید کی اصطلاح کے مطابق " بغاوت " کا مصداق نہیں ٹھہراتے، اور نہ ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دیتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کا مسلک ظالم امراء کے خلاف قتال کے معاملہ میں اہل علم کو معلوم ہے۔ ابوبکر جصاص احکام القرآن میں صاف لکھتے ہیں کہ امام صاحب اس قتال کو نہ صرف جائز، بلکہ سازگار حالات میں واجب سمجھتے تھے (جلد اول، ص
81
۔ جلد دوم، ص
39
) بنی امیہ کے خلاف زید بن علی کے خروج میں انہوں نے نہ صرف خود مالی مدد دی، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی (الجصاص، ج
1
ص
81
)۔ منصور کے خلاف نفس زکیہ کے خروج میں وہ پوری سرگرمی کے ساتھ نفس زکیہ کی حمایت کرتے رہے اور اس جنگ کو انہوں نے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرار دیا (الجصاص، ج
1
، ص
81
۔ مناقب ابی حنیفہ للکردری، ج
2
، ص
71
۔
72
)۔ پھر فقہائے حنفیہ کا بھی متفقہ مسلک وہ نہیں ہے جو امام سرخسی نے بیان کیا ہے۔ ابن ہمام ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ الباغی فی عرف الفقھاْء الخارج عن طاعۃ امام الحق، " فقہاء کے عرف میں باغی وہ ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جائے "۔ حنابلہ میں سے ابن عقیل اور ابن الجوزی امام غیر عادل کے خلاف خروج کو جائز ٹھہراتے ہیں اور اس پر حضرت حسین کے خروج سے استدلال کرتے ہیں (الانصاف، ج
10
، باب قتال اہل البغی)۔ امام شافعی کتاب الام میں باغی اس شخص کو قرار دیتے ہیں جو امام عادل کے خلاف جنگ کرے (ج
4
، ص
135
)۔ امام مالک کا مسلک المدونہ میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ " خروج کرنے والے اگر امام عدل کے خلاف جنگ کرنے کے لیے نکلیں تو ان کے خلاف مقاتلہ کیا جائے " (جلد اول، ص
407
)۔ قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں " جب کوئی شخص عمر بن عبدالعزیز جیسے امام عدل کے خلاف خروج کرے تو اس کی دفع کرنا واجب ہے، رہا کسی دوسری قسم کا امام تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ، اللہ کسی دوسرے ظالم کے ذریعہ سے اس کو سزا دے گا اور پھر کسی تیسرے ظالم کے ذریعہ سے ان دونوں کو سزا دے گا "۔ ایک اور قول امام مالک کا انہوں نے یہ نقل کیا ہے " جب ایک امام سے بیعت کی جا چکی ہو اور پھر اس کے بھائی اس کے مقابلے پر کھڑے ہوجائیں تو ان سے جنگ کی جائے گی اگر وہ امام عادل ہو۔ رہے ہمارے زمانے کے ائمہ تو ان کے لیے کوئی بیعت نہیں ہے، کیونکہ ان کی بیعت زبردستی لی گئی ہے " پھر مالکی علماء کا جو مسلک سَحْنون کے حوالہ سے قاضی صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ تو صرف امام عدل کے ساتھ مل کر کی جائے گی، خواہ پہلا امام عادل ہو یا وہ شخص جس نے اس کے خلاف خروج کیا ہو۔ لیکن اگر دونوں عادل نہ ہوں تو دونوں سے الگ رہو۔ البتہ اگر تمہاری اپنی جان پر حملہ کیا جائے یا مسلمان ظلم کے شکار ہو رہے ہوں تو مدافعت کرو "۔ یہ مسالک نقل کرنے کے بعد قاضی ابوبکر کہتے ہیں لا نقاتل الا مع امامٍ عادل یقدمہ اھل الحق لانفسہم۔ " ہم جنگ نہیں کریں گے مگر اس امام عادل کے ساتھ جسے اہل حق نے اپنی امامت کے لیے آگے بڑھایا ہو "۔
3
)۔ خروج کرنے والے اگر قلیل التعداد ہوں اور ان کی پشت پر کوئی بڑی جماعت نہ ہو، نہ وہ کچھ زیادہ جنگی سر و سامان رکھتے ہوں، تو ان پر قانون بغاوت کا اطلاق نہ ہوگا، بلکہ ان کے ساتھ عام قانون تعزیرات کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا، یعنی وہ قتل کریں گے تو ان سے قصاص لیا جائے گا اور مال کا نقصان کریں گے تو اس کا تاوان ان پر عائد ہوگا۔ قانون بغاوت کا اطلاق صرف ان باغیوں پر ہوتا ہے جو کوئی بڑی طاقت رکھتے ہوں، اور کثیر جمیعت اور جنگی سرو سامان کے ساتھ خروج کریں۔
4
)۔ خروج کرنے والے جب تک محض اپنے فاسد عقائد، یا حکومت اور اس کے سربراہ کے خلاف باغیانہ اور معاندانہ خیالات کا اظہار کرتے رہیں، ان کو قتل یا قید نہیں کیا جاسکتا۔ جنگ ان کے خلاف صرف اس وقت کی جائے گی جب وہ عملاً مسلح بغاوت کردیں اور خونریزی کی ابتدا کر بیٹھیں۔ (المبسوط، باب الخوارج۔ فتح القدیر، باب البغاۃ۔ احکام القرآن للجصاص)۔
5
)۔ باغیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ان کو قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق دعوت دی جائے گی کہ وہ بغاوت کی روش چھوڑ کر عدل کی راہ اختیار کریں۔ اگر ان کے کچھ شبہات و اعتراضات ہوں تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس پر بھی وہ باز نہ آئیں اور مقاتلہ کا آغاز ان کی طرف سے ہوجائے، تب ان کے خلاف تلوار اٹھائی جائے گی۔ (فتح القدیر۔ احکام القرآن للجصاص)۔
6
)۔ باغیوں سے لڑائی میں جن ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے گا وہ نبی ﷺ کے اس ارشاد پر مبنی ہیں جسے حضرت عبداللہ بن عمر کے حوالہ سے حاکم، بزار اور الجصاص نے نقل کیا ہے۔ حضور ﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا اے ابن ام عبد، جانتے ہو اس امت کے باغیوں کے بارے میں اللہ کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا ان کے زخمیوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا، ان کے اسیر کو قتل نہیں کیا جائے گا، ان کے بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا، اور ان کا مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ " اس ضابطہ کا دوسرا ماخذ، جس پر تمام فقہائے اسلام نے اعتماد کیا ہے، حضرت علی ؓ کا قول اور عمل ہے۔ آپ نے جنگ جمَل میں فتح یاب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ بھاگنے والے کا تعاقب نہ کرو، زخمی پر حملہ نہ کرو، گرفتار ہوجانے والوں کو قتل نہ کرو، جو ہتھیار ڈال دے اس کو امان دو ، لوگوں کے گھروں میں نہ گھسو، اور عورتوں پر دست درازی نہ کرو، خواہ وہ تمہیں گالیاں ہی کیوں نہ دے رہی ہوں۔ آپ کی فوج کے بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ مخالفین کو اور ان کے بال بچوں کو غلام بنا کر تقسیم کردیا جائے۔ اس پر غضب ناک ہو کر آپ نے فرمایا۔ تم میں سے کون امّ المومنین عائشہ کو اپنے حصہ میں لینا چاہتا ہے ؟
7
)۔ باغیوں کے اموال کا حکم، جو حضرت علی ؓ کے اسوہ حسنہ سے ماخوذ ہے، یہ ہے کہ ان کا کوئی مال، خواہ وہ ان کے لشکر میں ملا ہو یا ان کے پیچھے ان کے گھروں پر ہو، اور وہ خواہ زندہ ہوں یا مارے جا چکے ہوں، بہرحال اسے مال غنیمت قرار دیا جائے گا اور نہ فوج میں تقسیم کیا جائے گا۔ البتہ جس مال کا نقصان ہوچکا ہو، اسکا کوئی ضمان لازم نہیں آتا۔ جنگ ختم ہونے اور بغاوت کا زور ٹوٹ جانے کے بعد ان کے مال ان ہی کو واپس دے دیے جائیں گے۔ ان کے اسلحہ اور سواریاں جنگ کی حالت میں اگر ہاتھ آجائیں تو انہیں ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا، مگر فاتحین کی ملکیت بنا کر مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا، اور اگر ان سے پھر بغاوت کا اندیشہ نہ ہو تو ان کی یہ چیزیں بھی واپس دے دی جائیں گی۔ صرف امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ حکومت اسے غنیمت قرار دے گی (المبسوط، فتح القدیر۔ الحصاص)۔
8
)۔ ان کے گرفتار شدہ لوگوں کو یہ عہد لے کر کہ وہ پھر بغاوت نہ کریں گے، رہا کردیا جائے گا۔ (المبسوط)۔
9
)۔ باغی مقتولوں کے سر کاٹ کر گشت کرانا سخت مکروہ فعل ہے، کیونکہ یہ مثلہ ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس رومی بطیق کا سر کاٹ کر لایا گیا تو آپ نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا ہمارا کام رومیوں اور ایرانیوں کی پیروی کرنا نہیں ہے۔ یہ معاملہ جب کفار تک سے کرنا روا نہیں ہے تو مسلمانوں کے ساتھ تو یہ بدرجہ اولیٰ ممنوع ہونا چاہیے۔ (المبسوط)۔
10
)۔ جنگ کے دوران میں باغیوں کے ہاتھوں جان و مال کا جو نقصان ہوا ہو، جنگ ختم ہونے اور امن قائم ہوجانے کے بعد اس کا کوئی قصاص اور ضمان ان پر عائد نہ ہوگا۔ نہ کسی مقتول کا بدلہ ان سے لیا جائے گا اور نہ کسی مال کا تاوان ان پر ڈالا جائے گا، تاکہ فتنے کی آگ پھر نہ بھڑک اٹھے۔ صحابہ کرام کی باہمی لڑائیوں میں یہی ضابطہ ملحوظ رکھا گیا تھا (المبسوط۔ الجصاص۔ احکام القرآن ابن العرنی)۔
11
)۔ جن علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہوگیا ہو اور وہاں انہوں نے اپنا نظم و نسق قائم کر کے زکوٰۃ اور دوسرے محصولات وصول کرلیے ہوں حکومت ان علاقہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد لوگوں سے از سرنو اس زکوٰۃ اور ان محصولات کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ اگر باغیوں نے یہ اموال شرعی طریقے پر صرف کردیے ہوں گو عند اللہ بھی وہ ادا کرنے والوں پر سے ساقط ہوجائیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے غیر شرعی طریقے پر تصرف کیا ہو، تو یہ ادا کرنے والوں کے اور ان کے خدا کے درمیان معاملہ ہے۔ وہ خود چاہیں تو اپنی زکوٰۃ دوبارہ ادا کردیں (فتح القدیر۔ الجصاص۔ ابن العربی)۔
12
)۔ باغیوں نے اپنے زیر تصرف علاوہ میں جو عدالتیں قائم کی ہوں، اگر ان کے قاضی اہل عدل میں سے ہوں اور شریعت کے مطابق انہوں نے فیصلے کیے ہوں، تو وہ بر قرار رکھے جائیں گے اگرچہ ان کے مقرر کرنے والے بغاوت کے مجرم ہی کیوں نہ ہوں۔ البتہ اگر ان کے فیصلے غیر شرعی ہوں اور بغاوت فرو ہونے کے بعد وہ حکومت کی عدالتوں کے سامنے لائے جائیں تو وہ نافذ نہیں کیے جائیں گے۔ علاوہ بریں باغیوں کی قائم کی ہوئی عدالتوں کی طرف سے کوئی وارنٹ یا پروانہ امر حکومت کی عدالتوں میں قبول نہ کیا جائے گا (المبسوط۔ الجصاص)۔
13
)۔ باغیوں کی شہادت اسلامی عدالتوں میں قابل قبول نہ ہوگی کیونکہ اہل عدل کے خلاف جنگ کرنا فسق ہے۔ امام محمد کہتے ہیں کہ جب تک وہ جنگ نہ کریں اور اہل عدل کے خلاف عملاً خروج کے مرتکب نہ ہوں، ان کی شہادت قبول کی جائے گی، مگر جب وہ جنگ کرچکے ہوں تو پھر میں ان کی شہادت قبول نہ کروں گا (الجصاص)۔ ان احکام سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کفار کے خلاف جنگ اور مسلمان باغیوں کے خلاف جنگ کے قانون میں کیا فرق ہے۔
Top