Tafheem-ul-Quran - Al-Maaida : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْهَمَّ : جب ارادہ کیا قَوْمٌ : ایک گروہ اَنْ : کہ يَّبْسُطُوْٓا : بڑھائیں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فَكَفَّ : پس روک دئیے اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَعَلَي : اور پر اللّٰهِ : اللہ فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے اُس احسان کو یاد کرو جو اُس نے (ابھی حال میں) تم پر کیا ہے، جبکہ ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کرلیا تھا مگر اللہ نے اُن کے ہاتھ تم پر اُٹھنے سے روک دیے۔30 اللہ سے ڈرکر کام کرتے رہو، ایمان رکھنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے
سورة الْمَآىِٕدَة 30 اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جسے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے روایت کیا ہے کہ یہودیوں میں سے ایک گروہ نے نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے خاص خاص صحابہ کو کھانے کی دعوت پر بلایا تھا اور خفیہ طور پر یہ سازش کی تھی کہ اچانک ان پر ٹوٹ پڑیں گے اور اس طرح اسلام کی جان نکال دیں گے۔ لیکن عین وقت پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے نبی ﷺ کو اس سازش کا حال معلوم ہوگیا اور آپ ﷺ دعوت پر تشریف نہ لے گئے۔ چونکہ یہاں سے خطاب کا رخ بنی اسرائیل کی طرف پھر رہا ہے اس لیے تمہید کے طور پر اس واقعہ کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ یہاں سے جو تقریر شروع ہو رہی ہے اس کے دو مقصد ہیں۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس روش پر چلنے سے روکا جائے جس پر ان کے پیش رو اہل کتاب چل رہے تھے۔ چناچہ انہیں بتایا جارہا ہے کہ جس طرح آج تم سے عہد لیا گیا ہے اسی طرح کل یہی عہد بنی اسرائیل سے اور مسیح ؑ کی امت سے بھی لیا جا چکا ہے۔ پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح وہ اپنے عہد کو توڑ کر گمراہیوں میں مبتلا ہوئے اسی طرح تم بھی اسے توڑ دو اور گمراہ ہوجاؤ۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ یہود اور نصاریٰ دونوں کو ان کی غلطیوں پر متنبہ کیا جائے اور انہیں دین حق کی طرف دعوت دی جائے۔
Top