Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafheem-ul-Quran - Al-Maaida : 12
وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۚ وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا١ؕ وَ قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْ١ؕ لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْهُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ لَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۚ فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
وَلَقَدْ
: اور البتہ
اَخَذَ اللّٰهُ
: اللہ نے لیا
مِيْثَاقَ
: عہد
بَنِيْٓ اِ سْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل
وَبَعَثْنَا
: اور ہم نے مقرر کیے
مِنْهُمُ
: ان سے
اثْنَيْ عَشَرَ
: بارہ
نَقِيْبًا
: سردار
وَقَالَ
: اور کہا
اللّٰهُ
: اللہ
اِنِّىْ مَعَكُمْ
: بیشک میں تمہارے ساتھ
لَئِنْ
: اگر
اَقَمْتُمُ
: نماز قائم رکھو گے
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاٰتَيْتُمُ
: اور دیتے رہو گے
الزَّكٰوةَ
: زکوۃ
وَاٰمَنْتُمْ
: اور ایمان لاؤ گے
بِرُسُلِيْ
: میرے رسولوں پر
وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ
: اور ان کی مدد کرو گے
وَاَقْرَضْتُمُ
: اور قرض دو گے
اللّٰهَ
: اللہ
قَرْضًا
: قرض
حَسَنًا
: حسنہ
لَّاُكَفِّرَنَّ
: میں ضرور دور کروں گا
عَنْكُمْ
: تم سے
سَيِّاٰتِكُمْ
: تمہارے گناہ
وَلَاُدْخِلَنَّكُمْ
: اور ضرور داخل کردوں گا تمہیں
جَنّٰتٍ
: باغات
تَجْرِيْ
: بہتی ہیں
مِنْ
: سے
تَحْتِهَا
: ان کے نیچے
الْاَنْھٰرُ
: نہریں
فَمَنْ
: پھر جو۔ جس
كَفَرَ
: کفر کیا
بَعْدَ ذٰلِكَ
: اس کے بعد
مِنْكُمْ
: تم میں سے
فَقَدْ ضَلَّ
: بیشک گمراہ ہوا
سَوَآءَ
: سیدھا
السَّبِيْلِ
: راستہ
اللہ نے بنی اسرائیل سے پُختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب
31
مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ ”میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰة دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی
32
اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے
33
تو یقین رکھو کہ میں تمہاری بُرائیاں تم سے زائل کردوں گا
34
اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اُس نے سواء السبیل
35
گم کردی۔“
سورة الْمَآىِٕدَة
31
نقیب کے معنی نگرانی اور تفتیش کرنے والے کے ہیں۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر قبیلہ پر ایک ایک نقیب خود اسی قبیلہ سے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھے اور انہیں بےدینی و بد اخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتا رہے۔ بائیبل کی کتاب گنتی میں بارہ ”سرداروں“ کا ذکر موجود ہے، مگر ان کی وہ حیثیت جو یہاں لفظ ”نقیب“ سے قرآن میں بیان کی گئی ہے، بائیبل کے بیان سے ظاہر نہیں ہوتی۔ بائیبل انہیں صرف رئیسوں اور سرداروں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور قرآن ان کی حیثیت اخلاقی و دینی نگران کار کی قرار دیتا ہے۔ سورة الْمَآىِٕدَة
32
یعنی جو رسول بھی میری طرف سے آئیں، ان کی دعوت پر اگر تم لبیک کہتے اور ان کی مدد کرتے رہے۔ سورة الْمَآىِٕدَة
33
یعنی خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے رہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اس ایک ایک پائی کو، جو انسان اس کی راہ میں خرچ کرے، کئی گنا زیادہ انعام کے ساتھ واپس کرنے کا وعدہ فرماتا ہے، اس لیے قرآن میں جگہ جگہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے کو ”قرض“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بشرطیکہ وہ ”اچھا قرض“ ہو، یعنی جائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت خرچ کی جائے، خدا کے قانون کے مطابق خرچ کی جائے اور خلوص وحسن نیت کے ساتھ خرچ کی جائے۔ سورة الْمَآىِٕدَة
34
کسی سے اس کی برائیاں زائل کردینے کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ راہ راست کو اختیار کرنے اور خدا کی ہدایت کے مطابق فکر و عمل کے صحیح طریقے پر چلنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان کا نفس بہت سی برائیوں سے، اور اس کا طرز زندگی بہت سی خرابیوں سے پاک ہوتا چلا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس اصلاح کے باوجود اگر کوئی شخص بحیثیت مجموعی کمال کے مرتبے کو نہ پہنچ سکے اور کچھ نہ کچھ برائیاں اس کے اندر باقی رہ جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان پر مواخذہ نہ فرمائے گا اور ان کو اس کے حساب سے ساقط کر دے گا، کیونکہ جس نے اساسی ہدایت اور بنیادی اصلاح قبول کرلی ہو اس کی جزئی اور ضمنی برائیوں کا حساب لینے میں اللہ تعالیٰ سخت گیر نہیں ہے۔ سورة الْمَآىِٕدَة
35
یعنی اس نے ”سَوَاء السّبیل“ کو پا کر پھر کھو دیا اور وہ تباہی کے راستوں میں بھٹک نکلا۔ ”سَوَاء السّبیل“ کا ترجمہ ”توسط و اعتدال کی شاہراہ“ کیا جاسکتا ہے مگر اس سے پورا مفہوم ادا نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں اصل لفظ ہی کو جوں کا توں لے لیا ہے۔ اس لفظ کی معنویت کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ انسان بجائے خود اپنی ذات میں ایک عالم اصغر ہے جس کے اندر بیشمار مختلف قوتیں اور قابلیتیں ہیں، خواہشیں ہیں، جذبات اور رحجانات ہیں، نفس اور جسم کے مختلف مطالبے ہیں، روح اور طبیعت کے مختلف تقاضے ہیں۔ پھر ان افراد کے ملنے سے جو اجتماعی زندگی بنتی ہے وہ بھی بےحد و حساب پیچیدہ تعلقات سے مرکب ہوتی ہے اور تمدن و تہذیب کے نشو و نما کے ساتھ ساتھ اس کی پیچیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ پھر دنیا میں جو سامان زندگی انسان کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اس سے کام لینے اور اس کو انسانی تمدن میں استعمال کرنے کا سوال بھی انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے بکثرت شاخ در شاخ مسائل پیدا کرتا ہے۔ انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے اس پورے عرصہ حیات پر بیک وقت ایک متوازن نظر نہیں ڈال سکتا۔ اس بنا پر انسان اپنے لیے خود زندگی کا کوئی ایسا راستہ بھی نہیں بنا سکتا جس میں اس کی ساری قوتوں کے ساتھ انصاف ہو، اس کی تمام خواہشوں کا ٹھیک ٹھیک حق ادا ہوجائے، اس کے سارے جذبات و رحجانات میں توازن قائم رہے، اس کے سب اندرونی و بیرونی تقاضے تناسب کے ساتھ پورے ہوں، اس کی اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کی مناسب رعایت ملحوظ ہو اور ان سب کا ایک ہموار اور متناسب حل نکل آئے، اور مادی اشیاء کو بھی شخصی اور تمدنی زندگی میں عدل، انصاف اور حق شناسی کے ساتھ استعمال کیا جاتا رہے۔ جب انسان خود اپنا رہنما اور اپنا شارع بنتا ہے تو حقیقت کے مختلف پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو، زندگی کی ضرورتوں میں سے کوئی ایک ضرورت، حل طلب مسئلوں میں سے کوئی ایک مسئلہ اس کے دماغ پر اس طرح مسلط ہوجاتا ہے کہ دوسرے پہلوؤں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ وہ بالارادہ یا بلا ارادہ بےانصافی کرنے لگتا ہے۔ اور اس کی اس رائے کے زبردستی نافذ کیے جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور وہ بےاعتدالی کی کسی ایک انتہا کی طرف ٹیڑھی چلنے لگتی ہے۔ پھر جب یہ ٹیڑھی چال اپنے آخری حدود پر پہنچتے پہنچتے انسان کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتی ہے تو وہ پہلو اور وہ ضروریات اور وہ مسائل جن کے ساتھ بےانصافی ہوئی تھی، بغاوت شروع کردیتے ہیں اور زور لگانا شروع کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف ہو۔ مگر انصاف پھر بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ پھر وہی عمل رونما ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک، جو سابق بےاعتدالی کی بدولت سب سے زیادہ دبا دیا گیا تھا، انسانی دماغ پر حاوی ہوجاتا ہے اور اسے اپنے مخصوص مقتضاء کے مطابق ایک خاص رخ پر بہا لے جاتا ہے جس میں پھر دوسرے پہلوؤں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ بےانصافی ہونے لگتی ہے۔ اس طرح زندگی کو کبھی سیدھا چلنا نصیب نہیں ہوتا۔ ہمیشہ وہ ہچکولے ہی کھاتی رہتی ہے اور تباہی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف ڈھلکتی چلی جاتی ہے۔ تمام وہ راستے جو خود انسان نے اپنی زندگی کے لیے بنائے ہیں، خط منحنی کی شکل میں واقع ہیں، غلط سمت سے چلتے ہیں اور غلط سمت پر ختم ہو کر پھر کسی دوسری غلط سمت کی طرف مڑ جاتے ہیں۔ ان بہت سے ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان ایک ایسی راہ جو بالکل وسط میں واقع ہو، جس میں انسان کی تمام قوتوں اور خواہشوں کے ساتھ، اس کے تمام جذبات و رحجانات کے ساتھ، اور اس کی روح اور جسم کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کے ساتھ، اور اس کی زندگی کے تمام مسائل کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا گیا ہو، جس کے اندر کوئی ٹیڑھ، کوئی کجی، کسی پہلو کی بےجا رعایت اور کسی دوسرے پہلو کے ساتھ ظلم اور بےانصافی نہ ہو، انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء اور اس کی کامیابی و بامرادی کے لیے سخت ضرورت ہے۔ انسان کی عین فطرت اس راہ کی طالب ہے، اور مختلف ٹیڑھے راستوں سے بار بار اس کے بغاوت کرنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اس سیدھی شاہراہ کو ڈھونڈتی ہے۔ مگر انسان خود اس شاہراہ کو معلوم کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اس کی طرف صرف خدا ہی راہنمائی کرسکتا ہے اور خدا نے اپنے رسول اسی لیے بھیجے ہیں کہ اس راہ راست کی طرف انسان کی راہنمائی کریں۔ قرآن اسی راہ کو سَوَاء السّبیل اور صراط مستقیم کہتا ہے۔ یہ شاہراہ دنیا کی اس زندگی سے لے کر آخرت کی دوسری زندگی تک بیشمار ٹیڑھے راستوں کے درمیان سے سیدھی گزرتی چلی جاتی ہے۔ جو اس پر چلا، وہ یہاں راست رو اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہے، اور جس نے اس راہ کو گم کردیا، وہ یہاں غلط ہیں، غلط رو اور غلط کار ہے، اور آخرت میں لامحالہ اسے دوزخ میں جانا ہے، کیونکہ زندگی کے تمام ٹیڑھے راستے دوزخ ہی کی طرف جاتے ہیں۔ موجودہ زمانہ کے بعض نادان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے در پے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتی چلی جا رہی ہے، یہ غلط نتیجہ نکال لیا کہ ”جَدَلی عمل“ (Dialectical Process) انسانی زندگی کے ارتقاء کا فطری طریق ہے۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقاء کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ (Thesis) اسے ایک رخ پر بہا لے جائے، پھر اس کے جواب میں دوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ (Antithesis) اسے دوسری انتہا کی طرف کھینچے، اور پھر دونوں کے امتزاج (Synthesis) سے ارتقاء حیات کا راستہ بنے۔ حالانکہ دراصل یہ ارتقاء کی راہ نہیں ہے بلکہ بد نصیبی کے دھکے ہیں جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء میں بار بار مانع ہو رہے ہیں۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتا ہے اور اسے کھینچے لیے چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ سَوَاء السّبیل سے بہت دور جا پڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دوسری حقیقتیں، جن کے ساتھ بےانصافی ہو رہی تھی، اس کے خلاف بغاوت شروع کردیتی ہیں اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کر کے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کرتی ہے۔ جوں جوں سَوَاء السّبیل قریب آتی ہے ان متصادم دعوؤں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیں وجود میں آتی ہیں جو انسانی زندگی میں نافع ہیں۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاء السّبیل کے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھیرنے نہیں دیتا بلکہ اپنے زور میں اسے دوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہوجاتی ہے اور نتیجہ میں ایک دوسری بغاوت اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انہوں نے سَوَاء السّبیل کو دیکھ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ انسان کے لیے ارتقاء کا صحیح راستہ یہی سواء السّبیل ہے کہ خط منحنی پر ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا۔
Top