Tafheem-ul-Quran - An-Najm : 39
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ
وَاَنْ لَّيْسَ : اور یہ کہ نہیں لِلْاِنْسَانِ : انسان کے لیے اِلَّا مَا سَعٰى : مگر جو اس نے کوشش کی
اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے، 38
سورة النَّجْم 38 اس ارشاد سے بھی تین اہم اصول نکلتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی پائے گا اپنے عمل کا پھل پائے گا۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کے عمل کا پھل دوسرا نہیں پاسکتا الا یہ کہ اس عمل میں اس کا اپنا کوئی حصہ ہو۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص سعی و عمل کے بغیر کچھ نہیں پاسکتا۔ ان تین اصولوں کو بعض لوگ دنیا کے معاشی معاملات پر غلط طریقے سے منطبق کر کے ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی محنت کی کمائی (earned Income) کے سوا کسی چیز کا جائز مالک نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ بات قرآن مجید ہی کے دیے ہوئے متعدد قوانین اور احکام سے ٹکراتی ہے۔ مثلاً قانون وراثت، جس کی رو سے ایک شخص کے ترکے میں سے بہت سے افراد حصہ پاتے ہیں اور اس کے جائز وارث قرار پاتے ہیں درآں حال یہ کہ یہ میراث ان کی اپنی محنت کی کمائی نہیں ہوتی، بلکہ ایک شیر خوار بچے کے متعلق تو کسی کھینچ تان سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں اس کی محنت کا بھی کوئی حصہ تھا۔ اسی طرح احکام زکوٰۃ و صدقات، جن کی رو سے ایک آدمی کا مال دوسروں کو محض ان کے شرعی و اخلاقی استحقاق کی بنا پر ملتا ہے اور وہ اس کے جائز مالک ہوتے ہیں، حالانکہ اس مال کے پیدا کرنے میں ان کی محنت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اس لیے قرآن کی کسی ایک آیت کو لے کر اس سے ایسے نتائج نکالنا جو خود قرآن ہی کی دوسری تعلیمات سے متصادم ہوتے ہوں، قرآن کے منشا کے بالکل خلاف ہے۔ بعض دوسرے لوگ ان اصولوں کو آخرت سے متعلق مان کر یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ آیا ان اصولوں کی رو سے ایک شخص کا عمل دوسرے شخص کے لیے کسی صورت میں بھی نافع ہوسکتا ہے ؟ اور کیا ایک شخص اگر دوسرے شخص کے لیے یا اس کے بدلے کوئی عمل کرے تو وہ اس کی طرف سے قبول کیا جاسکتا ہے ؟ اور کیا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص اپنے عمل کے اجر کو دوسرے کی طرف منتقل کرسکے ؟ ان سوالات کا جواب اگر نفی میں ہو تو ایصال ثواب اور حج بدل وغیرہ سب ناجائز ہوجاتے ہیں، بلکہ دوسرے کے حق میں دعائے استغفار بھی بےمعنی ہوجاتی ہے، کیونکہ یہ دعا بھی اس شخص کا اپنا عمل نہیں ہے جس کے حق میں دعا کی جائے۔ مگر یہ انتہائی نقطہ نظر معتزلہ کے سوا اہل اسلام میں سے کسی نے اختیار نہیں کیا ہے۔ صرف وہ اس آیت کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ ایک شخص کی سعی دوسرے کے لیے کسی حال میں بھی نافع نہیں ہو سکتی۔ بخلاف اس کے اہل سنت ایک شخص کے لیے دوسرے کی دعا کے نافع ہونے کو تو بالاتفاق مانتے ہیں کیونکہ وہ قرآن سے ثابت ہے، البتہ ایصال ثواب اور نیابۃً دوسرے کی طرف سے کسی نیک کام کے نافع ہونے میں ان کے درمیان اصولاً نہیں بلکہ صرف تفصیلات میں اختلاف ہے۔ (1)۔ ایصال ثواب یہ ہے کہ ایک شخص کوئی نیک عمل کر کے اللہ سے دعا کرے کہ اس کا اجر وثواب کسی دوسرے شخص کو عطا فرما دیا جائے۔ اس مسئلے میں امام مالک اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ خالص بدنی عبادات، مثلاً نماز، روزہ اور تلاوت قرآن وغیرہ کا ثواب دوسرے کو نہیں پہنچ سکتا، البتہ مالی عبادات، مثلاً صدقہ، یا مالی و بدنی مرکب عبادات، مثلاً حج کا ثواب دوسرے کو پہنچ سکتا ہے، کیونکہ اصل یہ ہے کہ ایک شخص کا عمل دوسرے کے لیے نافع نہ ہو، مگر چونکہ احادیث صحیحہ کی رو سے صدقہ کا ثواب پہنچایا جاسکتا ہے اور حج بدل بھی کیا جاسکتا ہے، اس لیے ہم اسی نوعیت کی عبادات تک ایصال ثواب کی صحت تسلیم کرتے ہیں۔ بخلاف اس کے حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ انسان اپنے ہر نیک عمل کا ثواب دوسرے کو ہبہ کرسکتا ہے خواہ وہ نماز ہو یا روزہ یا تلاوت قرآن یا ذکر یا صدقہ یا حج وعمرہ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آدمی جس طرح مزدوری کر کے مالک سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی اجرت میرے بجائے فلاں شخص کو دے دی جائے، اسی طرح وہ کوئی نیک عمل کر کے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرسکتا ہے کہ اس کا اجر میری طرف سے فلاں شخص کو عطا کردیا جائے۔ اس میں بعض اقسام کی نیکیوں کو مستثنیٰ کرنے اور بعض دوسری اقسام کی نیکیوں تک اسے محدود رکھنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ یہی بات بکثرت احادیث سے بھی ثابت ہے بخاری، مسلم، مسند احمد، ابن ماجہ، طبرانی (فی الاوسط) مستدرک اور ابن ابی شیبہ میں حضرت عائشہ، حضرت ابوہریرہ حضرت جابر بن عبد اللہ، حضرت ابو رافع، حضرت ابو طلحہ انصاری، اور حذیفہ بن اسید الغفاری کی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو مینڈھے لے کر ایک اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربان کیا اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے۔ مسلم، بخاری، مسند احمد، ابوداؤد اور نسائی میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کو موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرنے کے لیے کہتیں۔ اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کے لیے اجر ہے ؟ فرمایا ہاں۔ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے زمانہ جاہلیت میں سو اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی۔ ان کے چچا ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کردیے۔ حضرت عمرو بن العاص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میں کیا کروں۔ حضور نے فرمایا اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کرلیا تھا تو تم ان کی طرف سے روزہ رکھو یا صدقہ کرو، وہ ان کے لیے نافع ہوگا۔ مسند احمد، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت حسن بصری کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اسی مضمون کی متعدد دوسری روایات بھی حضرت عائشہ، حضرت ابوہریرہ اور حضرت بن عباس سے بخاری، مسلم مسند احمد، نسائی ترمذی، ابوداؤد او ابن ماجہ وغیرہ میں موجود ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے میت کی طرف سے صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے اور اسے میت کے لیے نافع بتایا ہے۔ دار قطنی میں ہے کہ ایک شخص نے حضور سے عرض کیا میں اپنے والدین کی خدمت ان کی زندگی میں تو کرتا ہوں، ان کے مرنے کے بعد کیسے کروں ؟ فرمایا " یہ بھی ان کی خدمت ہی ہے کہ ان کے مرنے کے بعد تو اپنی نماز کے ساتھ ان کے لیے بھی نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کے لیے بھی روزے رکھ "۔ ایک دوسری روایت دار قطنی میں حضرت علی سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا جس شخص کا قبرستان پر گزر ہو اور وہ گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھ کر اس کا اجر مرنے والوں کو بخش دے تو جتنے مردے ہیں اتنا ہی اجر عطا کردیا جائے گا۔ یہ کثیر روایات جو ایک دوسری کی تائید کر رہی ہیں، اس امر کی تصریح کرتی ہیں کہ ایصال ثواب نہ صرف ممکن ہے، بلکہ ہر طرح کی عبادت اور نیکیوں کے ثواب کا ایصال ہوسکتا ہے اور اس میں کسی خاص نوعیت کے اعمال کی تخصیص نہیں ہے۔ مگر اس سلسلے میں چار باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں ایک یہ کہ ایصال اسی عمل کے ثواب کا ہوسکتا ہے جو خالصۃً اللہ کے لیے اور قواعد شریعت کے مطابق کیا گیا ہو، ورنہ ظاہر ہے کہ غیر اللہ کے لیے یا شریعت کے خلاف جو عمل کیا جائے اس پر خود عمل کرنے والے ہی کو کسی قسم کا ثواب نہیں مل سکتا، کجا کہ وہ کسی دوسرے کی طرف منتقل ہو سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں صالحین کی حیثیت سے مہمان ہیں ان کو تو ثواب کا ہدیہ یقیناً پہنچے گا مگر جو وہاں مجرم کی حیثیت سے حوالات میں بند ہیں انہیں کوئی ثواب پہنچنا متوقع نہیں ہے۔ اللہ کے مہمانوں کو ہدیہ تو پہنچ سکتا ہے، مگر امید نہیں کہ اللہ کے مجرم کو تحفہ پہنچ سکے۔ اس کے لیے اگر کوئی شخص کسی غلط فہمی کی بنا پر ایصال ثواب کرے گا تو اس کا ثواب ضائع نہ ہوگا بلکہ مجرم کو پہنچنے کے بجائے اصل عامل ہی کی طرف پلٹ آئے گا۔ جیسے منی آرڈر اگر مرسل الیہ کو نہ پہنچے تو مرسل کو واپس مل جاتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایصال ثواب تو ممکن ہے مگر ایصال عذاب ممکن نہیں ہے۔ یعنی یہ تو ہوسکتا ہے کہ آدمی نیکی کر کے کسی دوسرے کے لیے اجر بخش دے اور وہ اس کو پہنچ جائے، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ آدمی گناہ کر کے اس کا عذاب کسی کو بخشے اور وہ اسے پہنچ جائے۔ اور چوتھی بات یہ ہے کہ نیک عمل کے دو فائدے ہیں۔ ایک اس کے وہ نتائج جو عمل کرنے والے کی اپنی روح اور اس کے اخلاق پر مترتب ہوتے ہیں اور جن کی بنا پر وہ اللہ کے ہاں بھی جزا کا مستحق ہوتا ہے۔ دوسرے اس کا وہ اجر جو اللہ تعالیٰ بطور انعام اسے دیتا ہے۔ ایصال ثواب کا تعلق پہلی چیز سے نہیں ہے بلکہ صرف دوسری چیز سے ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ورزش کر کے کشتی کے فن میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے جو طاقت اور مہارت اس میں پیدا ہوتی ہے وہ بہرحال اس کی ذات ہی کے لیے مخصوص ہے۔ دوسرے کی طرف وہ منتقل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اگر وہ کسی دربار کا ملازم ہے اور پہلوان کی حیثیت سے اس کے لیے ایک تنخواہ مقرر ہے تو وہ بھی اسی کو ملے گی، کسی اور کو نہ دے دی جائے گی۔ البتہ جو انعامات اس کی کارکردگی پر خوش ہو کر اس کا سرپرست اسے دے اس کے حق میں وہ درخواست کرسکتا ہے کہ وہ اس کے استاد، یا ماں باپ، یا دوسرے محسنوں کو اس کی طرف سے دے دیے جائیں۔ ایسا ہی معاملہ اعمال حسنہ کا ہے کہ ان کے روحانی فوائد قابل انتقال نہیں ہیں، اور ان کی جزا بھی کسی کو منتقل نہیں ہو سکتی، مگر ان کے اجر وثواب کے متعلق وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرسکتا ہے کہ وہ اس کے کسی عزیز قریب یا اس کے کسی محسن کو عطا کردیا جائے۔ اسی لیے اس کو ایصال جزا نہیں بلکہ ایصال ثواب کہا جاتا ہے۔ (2)۔ ایک شخص کی سعی کے کسی اور شخص کے لیے نافع ہونے کی دوسری شکل یہ ہے کہ آدمی یا تو دوسرے کی خواہش اور ایماء کی بنا پر اس کے لیے کوئی نیک عمل کرے، یا اس کی خواہش اور ایماء کے بغیر اس کی طرف سے کوئی ایسا عمل کرے جو دراصل واجب تو اس کے ذمہ تھا مگر وہ خود اسے ادا نہ کرسکا۔ اس کے بارے میں فقہاء حنفیہ کہتے ہیں کہ عبادات کی تین قسمیں ہیں۔ ایک خالص بدنی، جیسے نماز۔ دوسری خالص مالی، جیسے زکوٰۃ۔ اور تیسری مالی و بدنی مرکب، جیسے حج۔ ان میں سے پہلی قسم میں نیابت نہیں چل سکتی، مثلاً ایک شخص کی طرف سے دوسرا شخص نیابۃً نماز نہیں پڑھ سکتا۔ دوسری قسم میں نیابت ہو سکتی ہے، مثلاً بیوی کے زیورات کی زکوٰۃ شوہر دے سکتا ہے۔ تیسری قسم میں نیابت صرف اس حالت میں ہو سکتی ہے جبکہ اصل شخص جس کی طرف سے کوئی فعل کیا جا رہا ہے، اپنا فریضہ خود ادا کرنے سے عارضی طور پر نہیں بلکہ مستقل طور پر عاجز ہو، مثلاً حج بدل ایسے شخص کی طرف سے ہوسکتا ہے جو خود حج کے لیے جانے پر قادر نہ ہو اور نہ یہ امید ہو کہ وہ کبھی اس کے قابل ہو سکے گا۔ مالکہ اور شافیہ بھی اس کے قائل ہیں۔ البتہ امام مالک حج بدل کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ اگر باپ نے وصیت کی ہو کہ اس کا بیٹا اس کے بعد اس کی طرف سے حج کرے تو وہ حج بدل کرسکتا ہے ورنہ نہیں۔ مگر احادیث اس معاملہ میں بالکل صاف ہیں کہ باپ کا ایما یا وصیت ہو یا نہ ہو، بیٹا اس کی طرف سے حج بدل کرسکتا ہے۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میرے باپ کو فریضہ حج کا حکم ایسی حالت میں پہنچا ہے کہ وہ بہت بوڑھا ہوچکا ہے، اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ نہیں سکتا۔ آپ نے فرمایا فحُجّی عنہ، " تو اس کی طرف سے تو حج کرلے " (بخاری، مسلم، احمد، ترمذی، نسائی،)۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایت حضرت علی نے بھی بیان کی ہے (احمد، ترمذی)۔ حضرت عبداللہ بن زبیر قبیلہ خثعم ہی کے ایک مرد کا ذکر کرتے ہیں کہ اس نے بھی اپنے بوڑھے باپ کے متعلق یہی سوال کیا تھا۔ حضور نے پوچھا کیا تو اس کا سب سے بڑا لڑکا ہے ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا ارایت لو کان علیٰ ابیک دین فقضیتہ عنہ اکان یجزی ذٰلک عنہ ؟ " تیرا کیا خیال ہے، اگر تیرے باپ پر قرض ہو اور تو اس کو ادا کر دے تو وہ اس کی طرف سے ادا ہوجائے گا ؟ " اس نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا فَاحْجُجْ عنہ۔ " بس اسی طرح تو اس کی طرف سے حج بھی کرلے "۔ (احمد۔ نسائی)۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے آ کر عرض کیا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر وہ اس سے پہلے ہی مر گئی، اب کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا " تیری ماں پر اگر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا نہ کرسکتی تھی ؟ اسی طرح تم لوگ اللہ کا حق بھی ادا کرو، اور اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے ساتھ کیے ہوئے عہد پورے کیے جائیں " (بخاری۔ نسائی)۔ بخاری اور مسند احمد میں ایک دوسری روایت یہ ہے کہ ایک مرد نے آ کر اپنی بہن کے بارے میں وہی سوال کیا جو اوپر مذکور ہوا ہے اور حضور نے اس کو بھی یہی جواب دیا۔ ان روایات سے مالی و بدنی مرکب عبادات میں نیابت کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ رہیں خالص بدنی عبادات تو بعض احادیث ایسی ہیں جن سے اس نوعیت کی عبادات میں بھی نیابت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً ابن عباس کی یہ روایت کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے حضور سے پوچھا " میری ماں نے روزے کی نذر مانی تھی اور وہ پوری کیے بغیر مر گئی، کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھ سکتی ہوں ؟ " حضور نے فرمایا " اس کی طرف سے روزہ رکھ لے " (بخاری، مسلم، احمد، نسائی۔ ابوداؤد)۔ اور حضرت بریدہ کی یہ روایت کہ ایک عورت نے اپنی ماں کے متعلق پوچھا کہ اس کے ذمہ ایک مہینے (یا دوسری روایت کے مطابق دو مہینے) کے روزے تھے، کیا میں یہ روزے ادا کر دوں ؟ آپ نے اس کو بھی اس کی اجازت دے دی (مسلم، احمد، ترمذی، ابوداؤد)۔ اور حضرت عائشہ کی روایت کہ حضور نے فرمایا من مات وعلیہ صیام صام عنہ ولیہ، " جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ کچھ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اسکا ولی وہ روزے رکھ لے " (بخاری، مسلم، احمد۔ بزار کی روایت میں حضور کے الفاظ یہ ہیں کہ فلیصم عنہ ولیہ ان شاء۔ یعنی اس کا ولی اگر چاہے تو اس کی طرف سے یہ روزے رکھ لے)۔ انہی احادیث کی بنا پر اصحاب الحدیث اور امام اوزاعی اور ظاہریہ اس کے قائل ہیں کہ بدنی عبادات میں بھی نیابت جائز ہے۔ مگر امام ابو حنیفہ، امام مالک، اور امام شافعی اور امام زید بن علی کا فتویٰ یہ ہے کہ میت کی طرف سے روزہ نہیں رکھا جاسکتا ہے جبکہ مرنے والے نے اس کی نذر مانی ہو اور وہ اسے پورا نہ کرسکا ہو۔ مانعین کا استدلال یہ ہے کہ جن احادیث سے اس کے جواز کا ثبوت ملتا ہے ان کے راویوں نے خود اس کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔ ابن عباس کا فتویٰ نسائی نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ لا یصل احد عن احدٍ ولا یصم احد عن احد، " کوئی شخص کسی کی طرف سے نماز پڑھے اور نہ روزہ رکھے "۔ اور حضرت عائشہ کا فتویٰ عبدالرزاق کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ لا تصوموا عن موتٰکم و اطعموا عنہم، " اپنے مردوں کی طرف سے روزہ نہ رکھو بلکہ کھانا کھلاؤ "۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے بھی عبدالرزاق نے یہی بات نقل کی ہے کہ میت کی طرف سے روزہ نہ رکھا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداءً بدنی عبادات میں نیابت کی اجازت تھی، مگر آخری حکم یہی قرار پایا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ ورنہ کس طرح ممکن تھا کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ احادیث نقل کی ہیں وہ خود ان کے خلاف فتویٰ دیتے۔ اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ نیابۃً کسی فریضہ کی ادائیگی صرف ان ہی لوگوں کے حق میں مفید ہو سکتی ہے جو خود ادائے فرض کے خواہش مند ہوں اور معذوری کی وجہ سے قاصر رہ گئے ہوں۔ لیکن اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود قصداً حج سے مجتنب رہا اور اس کے دل میں اس فرض کا احساس تک نہ تھا، اس کے لیے خواہ کتنے ہی حج بدل کیے جائیں، وہ اس کے حق میں مفید نہیں ہو سکتے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص نے کسی کا قرض جان بوجھ کر مار کھایا اور مرتے دم تک اس کا کوئی ارادہ قرض ادا کرنے کا نہ تھا۔ اس کی طرف سے خواہ بعد میں پائی پائی ادا کردی جائے، اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ قرض مارنے والا ہی شمار ہوگا۔ دوسرے کے ادا کرنے سے سبکدوش صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو اپنی زندگی میں ادائے قرض کا خواہش مند ہو اور کسی مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کرسکا ہو۔
Top