Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 133
وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَؕ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب الْغَنِيُّ : بےپروا (بےنیاز) ذُو الرَّحْمَةِ : رحمت والا اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے وَيَسْتَخْلِفْ : اور جانشین بنا دے مِنْۢ بَعْدِكُمْ : تمہارے بعد مَّا يَشَآءُ : جس کو چاہے كَمَآ : جیسے اَنْشَاَكُمْ : اس نے تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے ذُرِّيَّةِ : اولاد قَوْمٍ : قوم اٰخَرِيْنَ : دوسری
تمہارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے۔101 اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمہاری جگہ دُوسرے جن لوگوں کو چاہے لے آئے جس طرح اُس نے تمہیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اُٹھایا ہے
سورة الْاَنْعَام 101 ”تمہارا رب بےنیاز ہے“ یعنی اس کی کوئی غرض تم سے اٹکی ہوئی نہیں ہے، اس کا کوئی مفاد تم سے وابستہ نہیں ہے کہ تمہاری نافرمانی سے اس کا کچھ بگڑ جاتا ہو، یا تمہاری فرماں برداری سے اس کو کوئی فائدہ پہنچ جاتا ہو۔ تم سب مل کر سخت نافرمان بن جاؤ تو اس کی بادشاہی میں ذرہ برابر کمی نہیں کرسکتے، اور سب کے سب مل کر اس کے مطیع فرمان اور عبادت گزار بن جاؤ تو اس کے ملک میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتے۔ وہ نہ تمہاری سلامیوں کا محتاج ہے اور نہ تمہاری نذر و نیاز کا۔ اپنے بیشمار خزانے تم پر لٹا رہا ہے بغیر اس کے کہ ان کے بدلہ میں اپنے لیے تم سے کچھ چاہے۔ ”مہربانی اس کا شیوہ ہے“۔ یہاں موقع و محل کے لحاظ سے اس فقرے کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ تمہارا رب تم کو راہ راست پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور حقیقت نفس الامری کے خلاف طرز عمل اختیار کرنے سے جو منع کرتا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری راست روی سے اس کا کوئی فائدہ اور غلط روی سے اس کا کوئی نقصان ہوتا ہے، بلکہ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ راست روی میں تمہارا اپنا فائدہ اور غلط روی میں تمہارا اپنا نقصان ہے۔ لہٰذا یہ سراسر اس کی مہربانی ہے کہ وہ تمہیں اس صحیح طرز عمل کی تعلیم دیتا ہے جس سے تم بلند مدارج تک ترقی کرنے کے قابل بن سکتے ہو اور اس غلط طرز عمل سے روکتا ہے جس کی بدولت تم پست مراتب کی طرف تنزل کرتے ہو۔ دوسرے یہ کہ تمہارا رب سخت گیر نہیں ہے، تم کو سزا دینے میں اسے کوئی لطف نہیں آتا ہے، وہ تمہیں پکڑنے اور مارنے پر تلا ہوا نہیں ہے کہ ذرا تم سے قصور سرزد ہو اور وہ تمہاری خبر لے ڈالے۔ درحقیقت وہ اپنی تمام مخلوقات پر نہایت مہربان ہے، غایت درجہ کے رحم و کرم کے ساتھ خدائی کر رہا ہے، اور یہی اس کا معاملہ انسانوں کے ساتھ بھی ہے۔ اسی لیے وہ تمہارے قصور پر قصور معاف کرتا چلا جاتا ہے۔ تم نافرمانیاں کرتے ہو، گناہ کرتے ہو، جرائم کا ارتکاب کرتے ہو، اس کے رزق سے پل کر بھی اس کے احکام سے منہ موڑتے ہو، مگر وہ حلم اور عفو ہی سے کام لیے جاتا ہے اور تمہیں سنبھلنے اور سمجھنے اور اپنی اصلاح کرلینے کے لیے مہلت پر مہلت دیے جاتا ہے۔ ورنہ اگر وہ سخت گیر ہوتا تو اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ تمہیں دنیا سے رخصت کردیتا اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اٹھا کھڑا کرتا، یا سارے انسانوں کو ختم کر کے کوئی اور مخلوق پیدا کردیتا۔
Top