Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 51
الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا١ۚ فَالْیَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَآءَ یَوْمِهِمْ هٰذَا١ۙ وَ مَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنالیا دِيْنَهُمْ : اپنا دین لَهْوًا : کھیل وَّلَعِبًا : اور کود وَّغَرَّتْهُمُ : اور انہیں دھوکہ میں ڈالدیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فَالْيَوْمَ : پس آج نَنْسٰىهُمْ : ہم انہیں بھلادینگے كَمَا نَسُوْا : جیسے انہوں نے بھلایا لِقَآءَ : ملنا يَوْمِهِمْ : ان کا دن ھٰذَا : یہ۔ اس وَ : اور مَا كَانُوْا : جیسے۔ تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں سے يَجْحَدُوْنَ : وہ انکار کرتے تھے
جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم بھی انہیں اسی طرح بُھلا دیں گے جس طرح وہ اِس دن کی ملاقات بھُولے رہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔“35
سورة الْاَعْرَاف 35 اہل جنت اور اہل دوزخ اور اصحاب الاعراف کی اس گفتگو سے کسی حد تک اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عالم آخرت میں انسان کی قوتوں کا پیمانہ کس قدر وسیع ہوجائے گا۔ وہاں آنکھوں کی بینائی اتنے بڑے پیمانہ پر ہوگی کہ جنت اور دوزخ اور اعراف کے لوگ جب چاہیں گے ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے۔ وہاں آواز اور سماعت بھی اتنے بڑے پیمانہ پر ہوگی کہ ان مختلف دنیاؤں کے لوگ ایک دوسرے سے بآسانی گفت و شینید کرسکیں گے۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے بیانات جو عالم آخرت کے متعلق ہمیں قرآن میں ملتے ہیں۔ اس بات کا تصور دلانے کے لیے کافی ہیں کہ وہاں زندگی کے قوانین ہماری موجودہ دنیا کے قوانین طبیعی سے بالکل مختلف ہوں گے، اگرچہ ہماری شخصیتیں یہی رہیں گی جو یہاں ہیں۔ جن لوگوں کے دماغ اس عالم طبیعی کے حدود میں اس قدر مقیّد ہیں کہ موجودہ زندگی اور اس کے مختصر پیمانوں سے وسیع تر کسی چیز کا تصور ان میں نہیں سما سکتا وہ قرآن اور حدیث ان بیانات کو بڑے اچنبھے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بسا اوقات ان کا مذاق اڑا کر اپنی خفیف العقلی کا مزید ثبوت بھی دینے لگتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان بیچاروں کو دماغ جتنا تنگ ہے زندگی کے امکانات اتنے تنگ نہیں ہیں۔
Top