Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 71
قَالَ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌ١ؕ اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ١ؕ فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا قَدْ وَقَعَ : البتہ پڑگیا عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب رِجْسٌ : عذاب وَّغَضَبٌ : اور غضب اَتُجَادِلُوْنَنِيْ : کیا تم جھگڑتے ہو مجھ سے فِيْٓ : میں اَسْمَآءٍ : نام (جمع) سَمَّيْتُمُوْهَآ : تم نے ان کے رکھ لیے ہیں اَنْتُمْ : تم وَاٰبَآؤُكُمْ : اور تمہارے باپ دادا مَّا نَزَّلَ : نہیں نازل کی اللّٰهُ : اللہ بِهَا : اس کے لیے مِنْ : کوئی سُلْطٰنٍ : سند فَانْتَظِرُوْٓا : سو تم انتظار کرو اِنِّىْ : بیشک میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مِّنَ : سے الْمُنْتَظِرِيْنَ : انتظار کرنے والے
اس نے کہا ”تمہارے ربّ کی پھٹکار تم پر پڑ گئی اور اس کا غضب ٹُوٹ پڑا۔ کیا تم مجھ سے اُن ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں54، جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے55؟ اچھا تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔“
سورة الْاَعْرَاف 54 یعنی تم کسی کو بارش کا اور کسی کو ہوا کا اور کسی کو دولت کا اور کسی کو بیماری کا رب کہتے ہو، حالانکہ ان میں سے کوئی بھی فی الحقیقت کسی چیز کا رب نہیں ہے۔ اس کی مثالیں موجودہ ازمنہ میں بھی ہمیں ملتی ہیں۔ کسی انسان کو لوگ مشکل کشا کہتے ہیں، حالانکہ مشکل کشائی کی کوئی طاقت اس کے پاس نہیں ہے۔ کسی کو گنج بخش کے نام سے پکارتے ہیں، حالانکہ اس کے پاس کوئی گنج نہیں کہ کسی کو بخشے۔ کسی کے لیے داتا کا لفظ بولتے ہیں، حالانکہ وہ کسی شے کا مالک نہیں کہ داتا بن سکے۔ کسی کو غریب نواز کے نام سے موسوم کردیا گیا ہے حالانکہ وہ غریب اس اقتدار میں کوئی حصہ نہیں رکھتا جس کی بنا پر وہ کسی غریب کو نواز سکے۔ کسی کو غوث (فریاد رس) کہا جاتا ہے، حالانکہ وہ کوئی زور نہیں رکھتا کہ کسی کی فریاد کو پہنچ سکے۔ پس در حقیقت ایسے سب نام محض نام ہی ہیں جن کے پیچھے کوئی مسمّٰی نہیں ہے۔ جو ان کے لیے جھگڑتا ہے وہ دراصل چند ناموں کے لیے جھگڑتا ہے نہ کہ کسی حقیقت کے لیے۔ سورة الْاَعْرَاف 55 یعنی اللہ جس کو تم خود بھی رب اکبر کہتے ہو، اس نے کوئی سند تمہارے ان بناوٹی خداؤں کی الٰہیت و ربوبیت کے حق میں عطا نہیں کی ہے۔ اس نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ میں نے فلاں فلاں کی طرف اپنی خدائی کا اتنا حِصّہ منتقل کردیا ہے۔ کوئی پروانہ اس نے کسی کو مشکل کشائی یا گنج بخشی کا نہیں دیا۔ تم نے آپ ہی اپنے وہم گمان سے اس کی خدائی کا جتنا حصّہ جس کو چاہا ہے دے ڈالا ہے۔
Top