Tafheem-ul-Quran - At-Tawba : 105
وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ١ؕ وَ سَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَۚ
وَقُلِ : اور کہ دیں آپ اعْمَلُوْا : تم کیے جاؤ عمل فَسَيَرَى : پس اب دیکھے گا اللّٰهُ : اللہ عَمَلَكُمْ : تمہارے عمل وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) وَسَتُرَدُّوْنَ : اور جلد لوٹائے جاؤگے اِلٰى : طرف عٰلِمِ الْغَيْبِ : جاننے والا پوشیدہ وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر فَيُنَبِّئُكُمْ : سو وہ تمہیں جتا دے گا بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اور اے نبی ؐ ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ تم عمل کرو ، اللہ اور اس کا رسول اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمہارا طرزِ عمل اب کیا رہتا ہے۔99 پھر تم اُس کی طرف پلٹائے جاوٴ گے جو کھُلے اور چھُپے سب کو جانتا ہے اور وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔100
سورة التَّوْبَة 99 یہاں جھوٹے مدعی امان اور گنہگار مومن کا فرق صاف صاف واضح کردیا گیا ہے۔ جو شخص ایمان کا دعوی کرتا ہے مگر فی الواقع خدا اور اس کے دین اور مومنین کی جماعت کے ساتھ کوئی خلوص نہیں رکھتا اس کے عدم اخلاص کا ثبوت اگر اس کے طرز عمل سے مل جائے تو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جائے گا۔ خدا کی راہ میں صرف کرنے کے لیے وہ کوئی مال پیش کرے تو اسے رد کردیا جائے گا۔ مر جائے تو نہ مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور نہ کوئی مومن اس کے لیے دعائے مغفرت کرے گا چاہے وہ اس کا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ بخلاف اس کے جو شخص مومن ہو اور اس سے کوئی غیر مخلصانہ طرز عمل سرزد ہوجائے وہ اگر اپنے قصور کا اعتراف کرلے تو اس کو معاف بھی کیا جائے گا، اس کے صدقات بھی قبول کیے جائیں گے اور اس کے لیے دعائے رحمت بھی کی جائے گی۔ اب رہی یہ بات کہ کس شخص کو غیر مخلصانہ طرز عمل کے صدور کے باوجود منافق کے بجائے محض گناہگار مومن سمجھا جائے گا، تو یہ تین معیاروں سے پرکھی جائے گی جن کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے (1) وہ اپنے قصور کے لیے عذرات لنگ اور تاویلات و توجیہات پیش نہیں کرے گا، بلکہ جو قصور ہوا ہے اسے سیدھی طرح صاف صاف مان لے گا۔ (2) اس کے سابق طرز عمل پر نگاہ ڈال کر دیکھا جائے گا کہ یہ عدم اخلاص کا عادی مجرم تو نہیں ہے۔ اگر پہلے وہ جماعت کا ایک صالح فرد رہا ہے اور اس کے کارنامہ زندگی میں مخلصانہ خدمات، ایثار و قربانی، اور سبقت الی الخیرات کا ریکارڈ موجود ہے تو باور کرلیا جائے گا کہ اس وقت جو قصور اس سے سرزد ہوا ہے وہ ایمان و اخلاص کے عدم کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض ایک کمزوری ہے جو وقتی طور پر رونما ہوگئی ہے۔ (3) اس کے آئندہ طرز عمل پر نگاہ رکھی جائے گی کہ آیا اس کا اعتراف قصور محض زبانی ہے یا فی الواقع اس کے اندر کوئی گہرا احساس ندامت موجود ہے۔ اگر وہ اپنے قصور کی تلافی کے لیے بےتاب نظر آئے اور اس کی بات بات سے ظاہر ہو کہ جس نقص ایمانی کا نقش اس کی زندگی میں ابھر آیا تھا اسے مٹانے اور اس کا تدارک کرنے کی وہ سخت کوشش کر رہا ہے، تو سمجھا جائے گا کہ وہ حقیقت میں نادم ہے اور یہ ندامت ہی اس کے ایمان و اخلاص کی دلیل ہوگی۔ محدثین نے ان آیات کی شان نزول میں جو واقعہ بیان کیا ہے اس سے یہ مضمون آئینہ کی طرح روشن ہوجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ آیات ابو لبابہ بن عبد المنذر اور ان کے چھ ساتھیوں کے معاملہ میں نازل ہوئی تھیں۔ ابو لبابہ ان لوگوں میں سے تھے جو بیعت عقبہ کے موقع پر ہجرت سے پہلے اسلام لائے تھے۔ پھر جنگ بدر، جنگ احد اور دوسرے معرکوں میں برابر شریک رہے۔ مگر غزوہ تبوک کے موقع پر نفس کی کمزوری نے غلبہ کیا اور یہ کسی عذر شرعی کے بغیر بیٹھے رہ گئے۔ ایسے ہی مخلص ان کے دوسرے ساتھی بھی تھے اور ان سے بھی یہ کمزوری سرزد ہوگئی۔ جب نبی ﷺ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے اور ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق اللہ اور رسول کی کیا رائے ہے تو انہیں سخت ندامت ہوئی۔ قبل اس کے کوئی باز پرس ہوتی انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو ایک ستون سے باندھ لیا اور کہا کہ ہم پر خواب و خور حرام ہے جب تک ہم معاف نہ کردیے جائیں، یا پھر ہم مرجائیں۔ چناچہ کئی روز وہ اسی طرح بےآب و دانہ اور بےخواب بندھے رہے حتیٰ کہ بےہوش ہو کر گر پڑے۔ آخر کار جب انہیں بتایا گیا کہ اللہ اور رسول نے تمہیں معاف کردیا تو انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ ہماری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ جس گھر کی آسائش نے ہمیں فرض سے غافل کیا اسے اور اپنے تمام مال کو خدا کی راہ میں دے دیں گے۔ مگر نبی ﷺ نے فرمایا کہ سارا مال دینے کی ضرورت نہیں، صرف ایک تہائی کافی ہے، چناچہ وہ انہوں نے اسی وقت فی سبیل اللہ وقف کردیا۔ اس قصہ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ خدا کے ہاں معافی کس قسم کی کمزوریوں کے لیے ہے۔ یہ سب حضرات عادی غیر مخلص نہ تھے بلکہ ان کا پچھلا کارنامہ زندگی ان کے اخلاص ایمانی پر دلیل تھا۔ ان میں سے کسی نے عذرات نہیں تراشے بلکہ اپنے قصور کو خود ہی قصور مان لیا۔ انہوں نے اعتراف قصور کے ساتھ اپنے طرز عمل سے ثابت کردیا کہ وہ واقعی نہایت نادم اور اپنے اس گناہ کی تلافی کے لیے سخت بےچین ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک اور مفید نکتے پر بھی نگاہ رہنی چاہیے جو ان آیات میں ارشاد ہوا ہے۔ وہ یہ کہ گناہوں کی تلافی کے لیے زبان اور قلب کی تو بہ کے ساتھ ساتھ عملی توبہ بھی ہونی چاہیے، اور عملی توبہ کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی خدا کی راہ میں مال خیرات کرے۔ اس طرح وہ گندگی جو نفس میں پرورش پا رہی تھی اور جس کی بدولت آدمی سے گناہ کا صدور ہوا تھا، دور ہوجاتی ہے اور خیر کی طرف پلٹنے کی استعداد بڑھتی ہے۔ گناہ کرنے کے بعد اس کا اعتراف کرنا ایسا ہے جیسے ایک آدمی جو گڑھے میں گرگیا تھا، اپنے گرنے کو خود محسوس کرلے۔ پھر اس کا اپنے گناہ پر شرمسار ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس گڑھے کو اپنے لیے نہایت بری جائے قرار سمجھتا ہے اور اپنی اسی حالت سے سخت تکلیف میں ہے۔ پھر اس کا صدقہ و خیرات اور دوسری نیکیوں سے اس کی تلافی کی سعی کرنا گویا گڑھے سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا ہے۔ سورة التَّوْبَة 100 مطلب یہ ہے کہ آخر کار معاملہ اس خدا کے ساتھ ہے جس سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی۔ اس لیے بالفرض اگر کوئی شخص دنیا میں اپنے نفاق کو چھپانے میں کامیاب ہوجائے اور انسان جن جن معیاروں پر کسی کے ایمان و اخلاص کو پرکھ سکتے ہیں ان سب پر بھی پورا اتر جائے تو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ نفاق کی سزا پانے سے بچ نکلا ہے۔
Top