Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 118
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَى الْقِتَالِ١ؕ اِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ١ۚ وَ اِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ یَّغْلِبُوْۤا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی حَرِّضِ : ترغیب دو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) عَلَي : پر الْقِتَالِ : جہاد اِنْ : اگر يَّكُنْ : ہوں مِّنْكُمْ : تم میں سے عِشْرُوْنَ : بیس صٰبِرُوْنَ : صبر والے يَغْلِبُوْا : غالب آئیں گے مِائَتَيْنِ : دو سو وَاِنْ : اور اگر يَّكُنْ : ہوں مِّنْكُمْ : تم میں سے مِّائَةٌ : ایک سو يَّغْلِبُوْٓا : وہ غالب آئیں گے اَلْفًا : ایک ہزار مِّنَ : سے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ وہ قَوْمٌ : لوگ لَّا يَفْقَهُوْنَ : سمجھ نہیں رکھتے
اور بےعلم (مشرکین عرب) کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے کیوں کلام نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی ان سے پہلے لوگ بھی ایسی ہی باتیں کہہ چکے ہیں۔ ان کے دل ایک دوسرے کے مشابہ ہوگئے۔ یقین کرنے والوں کے لیے تو ہم آیتیں بیان کرچکے ہیں
ترکیب : قال فعل الذین موصول لا یعلمون صلہ مجموعہ فاعل لولا کلمہ تخضیض یکلمنا اللہ جملہ معطوف علیہ او تاتینا آیہ معطوف مجموعہ مقولہ ہوا قال فعل الذین من قبلہم صلہ و موصول فاعل کذلک مفعول مقدم مثل مضاف قولہم مضاف الیہ مجموعہ بدل یا بیان ہے کذلک سے تشابہت فعل قلوبہم فاعل جملہ محل حال میں ہے بحذف قدر الذین سے بالحق جار مجرور موضع حال میں ہے تقدیرہ ارسلناک و معک الحق بشیرًا و نذیرًا دونوں حال ہیں کاف ارسلناک سے۔ تفسیر : عیسائیوں کا جاہلانہ اعتقاد بیان کرکے عرب کے جاہلوں کے اقوال نقل کرتا ہے جو ان کی تعلیم سے رسول کریم ﷺ اور قرآن مجید کے بارے میں کیا کرتے تھے تاکہ معلوم ہو کہ پیر اور مرید دونوں ہدایت اور علم سے کس قدر دور پڑے ہوتے تھے اور دنیا میں کس قدر جہل اور گمراہی کی تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ اہل کتاب جو اہل علم و کمال تھے جن کو اگلے انبیاء اور ان کی کتابوں کا خزانہ دار سمجھا جاتا تھا ان کی تو یہ حالت اور عرب کے جاہلوں کی یہ کیفیت تھی۔ قریش مکہ آنحضرت ﷺ کے مقابلہ میں دو اعتراض کیا کرتے تھے ایک یہ کہ خود ہم سے اللہ کیوں کلام نہیں کرتا اور کیوں بالمشافہ نہیں کہہ دیتا کہ ہم نے فلاں کو رسول بنا کر بھیجا ہے لولا یکلمنا اللہ، دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر ایسا نہیں کرتا تو کیوں کوئی آیت یعنی ایسی نشانی ہمارے پاس نہیں بھیج دیتا جس سے رسالت کی صداقت ہوجاتی او تاتینا آیۃ پہلے اعتراض کا جواب بلکہ دوسرے کا بھی یہ دیتا ہے کذلک قال الذین من قبلہم الخ کہ یہ ان کی نادانی ہے اگر ہر شخص میں خدا تعالیٰ سے کلام کرنے کی صلاحیت و قابلیت ہوتی تو دنیا میں انبیاء بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہر شخص خدا سے پوچھ کر حرام و حلال ‘ عبادت و ریاضت کے امور طے کرلیا کرتا۔ خدائے تعالیٰ نور ہے جہاں مادہ کا ذکر بھی نہیں ہے۔ انسان مادی ہے جس کی ہیولانیت کے ظلمات اس پر ہر طرف سے محیط ہیں۔ ہاں انہیں انسانوں میں سے وہ جس کو چاہتا ہے ان ظلمات سے نورانی عالم میں لاتا اور اس سے بواسطہ ملائکہ یا بلاواسطہ ہزاروں نورانی پردوں کے اندر سے کلام کرتا ہے۔ دنیاوی معاملات میں کیا ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ مجھے حکیم کی کیا ضرورت ہر ایک کیوں نہیں حکیم ہوجاتا یا بادشاہ اور حکمراں کی کیا ضرورت، ہر شخص بادشاہ یا حکمراں کیوں نہیں بن جاتا۔ یہ نادانی اور جہل ہے پہلے جاہل بھی انبیاء کے مقابلہ میں ایسی باتیں کیا کرتے تھے۔ ان کے اور ان کے دل جہل میں یکساں ہیں۔ دوسرے اعتراض کا جواب دیتا ہے قد بینا الآیات کہ ایک نشانی نہیں ہم بہت سی نشانیاں بیان کرچکے ہیں مگر کس کے لیے لقوم یوقنون یقین کرنے والوں کے لیے جن میں قضاء و قدر نے یقین کا مادہ ہی نہیں رکھا۔ ان کے روبرو ہزاروں معجزات دکھائو ‘ سینکڑوں نشان قدرت رات دن ان کے سامنے پیش آئیں اور آتے ہیں مگر ان کو ان سے کوئی بھی نفع نہیں۔ بہرے کے سامنے ہزاروں نغمات دلکش گائے جائیں مگر اس کو کیا ؟ فائدہ : لفظ آیت سے اس مقام پر آیت قرآنی مراد نہیں۔ کس لیے کہ ایک آیت قرآنی کیا بہت سی ان کے پاس آچکی تھیں پھر کسی ایک آیت کی کیا درخواست کیا کرتے۔ بلکہ آیت سے نشان قدرت یعنی معجزات وغیرہ ہا مراد ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرات انبیاء کی روحانی طاقت سے اس قسم کے سینکڑوں حیرت خیز کام ظہور میں آئے جن کا فلسفہ انکار کرتا ہے۔ یہ اس لیے کہ ہنوز فلسفہ کی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ وجدانی خوارق و معجزات تو ایسے روحانی بزرگوں سے سینکڑوں ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ دل کی کشش قلبی لذت جس کا انکار نہیں ہوسکتا 1 ؎ کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے تمہارا کام صرف حکم پہنچا دینا ہے۔ آنحضرت ﷺ میں وہ تھی اور اب بھی ہے جس کے مقابلہ میں لوگوں نے جان و مال فدا کردی۔ شہوات لذات ترک کردیے مگر اس کا حساس تو قوم یوقنون ہی کو تھا اور اب ہے۔ اس کے بعد ان کے شبہات کو لاشے بنا کر ارشاد ہوتا ہے انا ارسلناک بالحق بشیرا ونذیرا کہ خود ہم نے نہ کہ کسی اور نے آپ کو دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ ماننے والوں کو بشارت دے اور منکروں کو آنے والی مصیبت سے خوف دلائے اور اے نبی اگر کسی بدبخت بدنصیب نے تمہاری بات کو نہ مانا تو آپ کے فرض منصبی میں کوئی قصور نہیں۔ آپ سے ان جہنمیوں کی بابت کوئی پرسش نہ ہوگی۔
Top