Tafseer-al-Kitaab - Ibrahim : 5
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ
وَ : اور لَقَدْاَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اَنْ : کہ اَخْرِجْ : تو نکال قَوْمَكَ : اپنی قوم مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَى النُّوْرِ : نور کی طرف وَذَكِّرْهُمْ : اور یاد دلا انہیں بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ : اللہ کے دن اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّكُلِّ صَبَّارٍ : ہر صبر کرنیوالے کے لیے شَكُوْرٍ : شکر کرنے والے
اور (دیکھو، ) یہ واقعہ ہے کہ ہم ہی نے موسیٰ کو (بھی) اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تھا (اور اسے حکم دیا تھا) کہ اپنی قوم کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کی) روشنی میں لاؤ اور ان کو اللہ کے (یادگار) ایام کی یاد دلاؤ۔ ان میں ہر صبروشکر کرنے والے کے لئے (عبرت و موعظت کی بڑی ہی) نشانیاں ہیں۔
[2] یعنی وہ تاریخی ایام جن میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان قوموں پر عذاب نازل فرمائے اور اہل ایمان کو ان کے ظلم و ستم سے نجات بخشی۔ [3] صبر کے معنی ہیں مشکلات و مصائب کے معاملے میں جمے رہنا اور شکر کے معنی ہیں اللہ کی بخشی ہوئی قوتوں کی قدر کرنا اور انھیں ٹھیک ٹھیک کام میں لانا۔ مطلب یہ ہے کہ ان نشانیوں سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اللہ کی آزمائشوں سے صبر اور پامردی کے ساتھ گزرنے والے اور اللہ کی نعمتوں کو ٹھیک ٹھیک محسوس کر کے ان کی قدر کرنے والے ہوں۔
Top